بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پام پام کے استعمال کا حکم


سوال

 ایک کھلونا نما چیز ہے pom pom، اس میں ایک دستہ ہوتا ہے اور دستہ کے آگے جھالڑیں ہوتی ہیں، یہ مختلف رنگوں میں ہوتا ہے۔ یہ عموماً کھیل کے میدانوں میں استعمال ہوتا ہے،  اس کا مقصد شائقین کو متوجہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنے رنگ اور جھالروں کی وجہ سے خوش نما معلوم ہوتا ہے۔آج کل مغربی دنیا میں اس کا استعمال کچھ یوں ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کے ہاتھ میں یہ دیا جاتا ہے، وہ رقص کرتی ہیں اور رقص کے دوران اس کھلونے کو ہلاتی ہیں اور مجمع کو متوجہ کرتی ہیں اور کھیل میں ان کی دلچسپی بڑھاتی ہیں،اس عمل کو انگریزی زبان میں cheerleading کہتے ہیں۔  ان لڑکیوں کا لباس بھی مختصر ہوتا ہے۔اور اس کھلونے کے نام سے ایک رقص مشہور ہوگیا ہے جس کو pom pom dance کہا جاتا ہے۔

ہمارے پاکستان میں اسکولوں میں جب کھیل کا مقابلہ ہوتا ہے اور مختلف جماعتیں بنتی ہیں اور ہر جماعت کو تعارف کے لیے ایک خاص رنگ دیا جاتا ہے اور  ہر جماعت کے کچھ لوگوں کے پاس یہ کھلونا  ہوتا ہے اس کھلونے کا و ہی رنگ ہوتا ہے جورنگ  جماعت کو تعارف کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس کا استعمال اسکولوں میں اس طرح ہوتا ہے کہ بچہ جب والدین (شائقین ) کے سامنے جب PT Display (یہ ایک قسم کی ورزش ہوتی ہے) کرتے ہیں تو بعض بچوں کے ہاتھ میں یہ کھلونا بندھا ہوا ہوتا ہے اور ورزش کے دوران یہ کھلونا بچوں کے ہاتھوں میں ہلتا ہوا دیکھنے والوں کو  خوش نمامعلوم ہوتا ہے۔  رقص نہیں کرتے بلکہ صرف ہاتھ سے اس کھلونے کو ہلاتے ہیں۔ 

میری بچی جو نابالغہ ہے اس کی اسکول میں بھی کھیل کا مقابلہ ہے،  اور اسکول والوں نے میری بچی کے  ہاتھ میں یہ کھلونا لگانے کا فیصلہ کیا ہے،  کوئی رقص نہیں کرنا ہوگا صرف ہاتھ میں یہ کھلونا باندھنا ہے اور وہ ورزش کے دوران لہرائے گا ، اور لباس بھی شریعت کے مطابق ہوگا۔

مجھے یہ پریشانی ہے کہ کھلونا مغربی دنیا میں اور بعض مواقع پر ہمارے ملک میں بھی رقص گانے اور نوجوان بے پردہ لڑکیوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے،  لہذا  مجھے اس میں تشبہ بالفساق کا پایا جانا محسوس ہوتا ہے۔

آپ سے راہ نمائی چاہیے کہ کیا میں اسکول والوں کے کہنے پر اپنی بچی کو یہ کھلونا استعمال کرنے کی اجازت دے دوں؟ میں نے اسکول والوں کے سامنے بات رکھی اور اشکال کیا تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تشبہ بالفساق نہیں ہے؛  کیونکہ اس کا اصل استعمال صرف مجمع کو متوجہ کرناہے،  اور مغربی دنیا میں اس کے ساتھ جو غیر شرعی لوازمات ہیں وہ اس کی ماہیت میں داخل نہیں ،  اور اس کا جائز طریقہ سے استعمال جائز ہوگا۔

جواب

سوال میں ذکر کردہ معلومات اور دیگر ذرائع سے حاصل شدہ معلومات  کے مطابق مذکورہ کھلونا (pom pom)کھیل کے میدان میں شائقین اور تماشیوں کے جوش کو ابھارنے والے استعمال کرتے ہیں، اس کھلونے کے رنگ اور جھالڑوں کے ذریعہ تماشیوں کو متوجہ کرتے ہیں۔ نیز انسائکلو پیڈیا بریٹینیکا (britannica) کے مطابق تماشیوں کو ابھارنے کا کام ابتداء میں تو مرد ہی کیا کرتے تھے لیکن انیسوی صدی عیسوی کے اوائل سے اس کام میں عورتیں بھی حصہ لینا شروع ہوگئیں اور پھر ان کی شمولیت بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہ کام عورتیں ہی کرنے لگیں  اور پھر تماشیوں کو متوجہ کرنے کے لیے رقص اور مختصر لباس کا جزء بن گیا۔پس اس طرح نوجوان لڑکیوں کارقص  اور مختصر لباس کے ساتھ اس کھلونے کا استعمال ہونے لگا۔

لہذا  مذکورہ  کھلونے (پام پام ) کا استعمال تشبہ بالفساق کی وجہ سے ناجائز ہے اور اس سےاجتناب کرنا چاہیے گو کہ اسکول میں نابالغ بچیاں مکمل لباس میں، رقص کے بغیر استعمال کر رہی ہیں، خاص طور پر   جب اس کھلونے کی کوئی ایسی افادیت بھی نہیں جس سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں یا جسمانی سرگرمیوں (ورزش) وغیرہ میں خلل واقع ہو رہا ہو ۔ایسے امور کے متعلق ہمیں شریعت مطہرہ یہ ہی تعلیم دیتی ہے کہ ان کو ترک کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں ان فساق اور ان کے اعمال سے سخت نفرت اور دوری پیدا ہوجائے اور مسلمان اپنی اسلامی زندگی اور تمدن و تہذیب کی حفاظت کرسکیں۔

متعدد احادیث ہمیں یہ تعلیم دیتی ہیں کہ کفار، فساق، اہل بدعت کے مشابہت سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فارسی قوس (کمان) استعمال کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اس کو ترک کرو اور عربی قوس (کمان)  استعمال کرو(رویات حدیث ذیل میں مذکور ہے)۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار اور فساق کی مشابہت کو پسند نہیں فرمایا حالانکہ  اس موقع پر کمان کا استعمال تیر اندازی کی ورزش کے لیے تھا لیکن چونکہ وہ ہی منفعت عربی کمان سے بھی حاصل ہوجاتی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں بھی تشبہ کو پسند نہیں فرمایا۔پس سائل اپنی بچی کو اجازت نہ دے اور اسکول والوں کو بھی چاہیےکہ اسکول میں اس کھلونے کے استعمال کو ترک کردیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن علي رضي الله عنه، قال: «كانت بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌قوس ‌عربية فرأى رجلا بيده قوس فارسية، قال: " ما هذه؟ ألقها، وعليكم بهذه وأشباهها ورماح القنا فإنها يؤيد الله لكم بها في الدين ويمكن لكم في البلاد» ". رواه ابن ماجه

(وعن علي رضي الله عنه قال: «كانت بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌قوس ‌عربية» ) : أي: منسوبة إلى العرب في الصناعة فرأى رجلا بيده قوس فارسية) : بكسر الراء ويسكن ; أي: عجمية (قال: ما هذه؟) : أي: القوس الفارسية (ألقها) : أي: اطرحها (وعليكم بهذه) : أي: القوس العربية (وأشباهها) : أي: في الهيئة (ورماح القنا) : بفتح القاف جمع القناة ; أي: برماح كاملة) فإنها) : أي: القصة (يؤيد الله لكم بها) : أي: بكل من القوس والرماح (في الدين ويمكن لكم في البلاد) : يقال: مكنته في الأرض تمكينا أثبته فيها. قال الطيبي: اسم إن ضمير القصة كقوله تعالى: {فإنها لا تعمى الأبصار} [الحج: 46] ولعل الصحابي رأى أن القوس الفارسية أقوى وأشد وأبعد مرمى، فآثرها على العربية زعما بأنها أعون في الحرب وفتح البلاد، فأرشده صلى الله عليه وسلم بأنه ليس كما زعمت، بل الله تعالى هو الذي ينصركم في الدين، ويمكنكم في البلاد بعونه لا بعونكم ولا قوة إعدادكم."

(کتاب الجہاد، باب اعداد آلۃ الجہاد، ج نمبر  ۶، ص نمبر ۲۵۱۰، دا ر الفکر)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اس زمانہ کے انگریزی خواں لوگ جو پاؤں سے گیند مارتے ہیں جس کو انگریزی میں فٹ بول کہا جاتا ہے یہ جائز ہے یا نہ؟

جواب: في المثكوة عن علي رضي الله عنه قال كانت بيد رسول الله  صلي الله عليه وسلم قوس عربية فراي رجلا بيده قوس فارسية قال ما هذه القها و عليكم بهذه و اشباهها الحديث رواه ابن ماجة،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طرق ورزش میں بھی تشبہ باہل باطل ممنوع ہے جبکہ دوسرے طرق ورزش کے اس محذور سے خالی پائے جاویں اور یہاں دوسرے طرق نافعہ بھی موجود ہیں لہذا یہ عمل ممنوع ہوگا اور اس میں غالبا جو اہل و عادت اور دین سے آزاد لوگوں سے جو اختلاط ہوتا ہے وہ خود بھی مستقلا وجہ منع کی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحہ، تشبہ بالکفار، ج نمبر ۴، ص نمبر ۲۶۷، مکتبہ دار العلوم کراچی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من ‌تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود

(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من ‌تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار."

(کتاب اللباس، ج نمبر ۷، ص نمبر ۲۷۸۲، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «ليس منا من ‌تشبه بغيرنا، لا تشبهوا باليهود ولا بالنصارى، فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالأكف» ". رواه الترمذي، وقال: إسناده ضعيف

«فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالأكف» ) . بفتح فضم جمع كف، والمعنى: لا تشبهوا بهم جميعا في جميع أفعالهم خصوصا في هاتين الخصلتين..... قال النووي: روينا عن أسماء بنت يزيد: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر في المسجد يوما وعصبة من النساء قعود فألوى بيده بالتسليم» . قال الترمذي: هذا حديث حسن، وهو محمول على أنه جمع بين اللفظ والإشارة، يدل على هذا أن أبا داود روى هذا الحديث، وقال في روايته: فسلم علينا. قلت: على تقدير عدم تلفظه عليه السلام بالسلام لا محذور فيه ; لأنه ما شرع السلام على من مر على جماعة من النسوان، وأن ما مر عنه عليه السلام مما تقدم من السلام المصرح، فهو من خصوصياته عليه الصلاة والسلام، فله أن يسلم ولا يسلم، وأن يشير ولا يشير، على أنه قد يراد بالإشارة مجرد التواضع من غير قصد السلام، وقد يحمل على أنه لبيان الجواز بالنسبة إلى النساء، وأن نهي التشبه محمول على الكراهة لا على التحريم والله أعلم."

(کتاب الآداب، باب السلام، ج نمبر ۷، ص نمبر ۲۹۴۶، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها، وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين، وسيجيء بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجيع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونه قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم» ) . رواه البيهقي في شعب الإيمان، ورزين في كتابه

(وإياكم ولحون أهل العشق) : أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين) ، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم."

(کتاب فضائل القران، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۵۰۵، دار الفکر)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اس زمانہ کے انگریزی خواں لوگ جو پاؤں سے گیند مارتے ہیں جس کو انگریزی میں فٹ بول کہا جاتا ہے یہ جائز ہے یا نہ؟

جواب: في المشكوة عن علي رضي الله عنه قال كانت بيد رسول الله  صلي الله عليه وسلم قوس عربية فراي رجلا بيده قوس فارسية قال ما هذه القها و عليكم بهذه و اشباهها الحديث رواه ابن ماجة،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرق ورزش میں بھی تشبہ بایل باطل ممنوع ہے جبکہ دوسرے طرق ورزش کے اس محذور سے خالی پائے جاویں اور یہاں دوسرے طرق نافعہ بھی موجود ہیں لہذا یہ عمل ممنوع ہوگا اور اس میں غالبا جو اہل و عادت اور دین سے آزاد لوگوں سے جو اختلاط ہوتا ہے وہ خود بھی مستقلا وجہ منع کی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحہ، تشبہ بالکفار، ج نمبر ۴، ص نمبر ۲۶۷، مکتبہ دار العلوم کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

"تالیاں بجانا لہو و لعب میں داخل ہے۔ شریعت مقدسہ نے عورتوں کو جب کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں اور کوئی ضرورت پیش آئے اجازت دی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ پر مار کر اپنا نماز میں مشغول ہونا ظاہر کردیں لیکن ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی صورت یہ تعلیم فرمائی کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی پشت پر ماریں کیونکہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر مار کر بجانا لہو و لعب کی صورت اور رقاصوں کا فعل ہے، نیز اظہار مسرت کے لیے مجامع میں تالیاں  بجانا کفار یورپ کا خاص طریقہ ہے لہذا اہل اسلام کو اول اس وجہ سے کہ لہو لعب کی صورت ہے دوم اس وجہ سے کہ کفار یورپ کی مشابہت ہے تالیاں بجانے سے باز رہنا چاہیے، یہ کہنا کہ شریعت میں اس کی ممانعت نہیں آئی لا علمی پر مبنی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف ارشاد موجود ہے کہ "جو شخص کسی قوم کی مشابہت پیدا کرے گا وہ اسی قوم میں سے ہوگا" اور اچکن وغیرہ پر اس کو قیاس کرنا صحیح نہیں کیونکہ اچکن اس لیے جائز ہے اس صورت میں لہو نہیں اور نہ اب وہ کسی قوم کافر کا خاص لباس ہے۔"

( کتاب الحظر و الاباحۃ، ج نمبر۹، ص نمبر ۱۱۶، دار الاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوڑی دار پائجامہ جو شائقین اوباشوں میں رائج ہے جب کہ بوتام لگا کر ٹخنے سے اوپر رکھا جائے جائز ہونا چاہیے، عدم جواز کی کیا دلیل ہے؟ اسراف تو کہہ نہیں سکتے کیونکہ بغرض زینت اگر کچھ کپڑا زائد لگ جائے تو اسراف میں داخل نہیں ورنہ لکھنؤ کا زنانہ پائجامہ بھی ناجائز ہونا چاہیے، حالانکہ اگر اس میں قباحت ہے تو صرف اتنی کہ تستر کلی طور پر نہیں ہوتا، چلنے میں ران اور ساق کھل جاتی ہے ، کپڑا زیادہ لگنا وجہ ممانعت نہیں ہے، ورنہ کابلیوں کا پائجامہ بھی ممنوع ہونا چاہیے اور مردوں کو لمبا کرتہ اچکن بھی ممنوع ہو کہ اس سے کم لمبا چوڑا بن سکتا ہے؟

الجواب: چونکہ اس میں تشبہ بالفساق ہے اس لیے مکروہ ہے جیسا ایک حدیث میں  کہ ایک بزرگ نے ایک امیر پر خطبہ میں انکار کیا تھا بلبس ثیاب الفساق ، حالانکہ وہ صرف باریک کپڑا پہنے تھا جو فی نفسہ مباح ہے مگر اس وقت ثیاب رقیقہ فساق کا تھا ، کذا ہذا فقط واللہ اعلم۔"

(کتاب الحظر و الاباحہ، احکام اللباس، ج نمبر ۴، ص نمبر ۱۲۸، دار العلوم کراچی)

انسائکلوپیڈیا بریٹینیکا میں ہے:

"a large collection of plastic strings attached to a handle that is waved by cheerleaders."

(https://www.britannica.com/dictionary/pom%E2%80%93pom)

انگریزی لغت میں ہے:

"a handheld usually brightly colored fluffy ball flourished by cheerleaders."

(https://www.merriam-webster.com/dictionary/pom-pom)

انسائکلوپیڈیا بریٹینیکا میں ہے:

"Although cheerleading is today predominantly associated with femininity, the original cheerleaders were men. Cheerleading was connected to the emergence of gridiron football at Ivy League colleges and universities in the United States in the mid-1800s, and the growth and formalization of cheerleading paralleled that of football. Over the latter half of the 19th century, as attendance at college games grew, large stadiums were constructed, and spectators were distanced from the playing field. Cheerleaders—or “yell leaders,” as they were then called—led cheers from the sidelines both to encourage the spectators and to serve as a form of crowd control. By the 1920s cheerleading had become a formal extracurricular activity for boys in high schools, colleges, and communities across the country, related to but distinct from other spirit programs such as marching bands, drum corps, and drill teams. As ambassadors for their schools and communities, cheerleaders were associated with such character-building traits as discipline, cooperation, leadership, and sportsmanship.

Women and people of colour were excluded from the private all-male schools where collegiate sports and cheerleading first developed, but many state-supported institutions began to admit women at the turn of the century, opening the way for their participation in sporting events. Women began joining cheer squads during the 1920s and ’30s as collegiate sports proliferated and men and women began socializing more in public. A separate cheerleading tradition evolved within black educational institutions during the same period, with a similar emphasis on character building and leadership. Overall, however, cheerleading remained an overwhelmingly white enterprise, and evidence suggests that it became even “whiter” after desegregation, because the total number of black schools diminished and black students were rarely elected as cheerleaders in the newly integrated, predominantly white schools. It was not until the 1960s and ’70s, well after scholastic athletic programs had diversified, that cheer squads began to reflect the ethnic and racial composition of schools. That shift was in part the result of protest activity on the part of black and Latino students.

The mobilization of college-age men during World War II opened up new opportunities for women in cheerleading and ultimately led to the “feminization” of cheerleading in the 1960s and ’70s, when the proportion of female cheerleaders rose to roughly 95 percent. Female involvement changed the nature of cheerleading, spurring greater emphasis on physical attractiveness and sex appeal. That, in turn, may have led to the trivialization and devaluation of cheerleading.

Cheerleading experienced a decline in popularity in the late 1970s and ’80s, brought on by second-wave feminism, which challenged traditional ideas about gender roles, and by the passage of Title IX, which guaranteed girls and women equal access to sports in schools that received U.S. federal funds. Cheerleading was criticized for its supportive auxiliary function in men’s sporting events and thus was blamed for perpetuating gender inequality. The introduction of cheerleading squads for professional sports teams, such as the Dallas Cowboy Cheerleaders and the Laker Girls, fueled criticism, since those squads’ performances generally consisted of overtly sexualized dance routines."

(https://www.britannica.com/sports/cheerleading)


فتوی نمبر : 144508101263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں