بعض کمپنیوں کی جرسی ، کوٹ اور جرابوں وغیرہ پر ان کی کمپنی کا لوگو بنا رہتا ہے، مثلًا پولو (polo )ایک مشہور کمپنی ہے، اس کی مصنوعات پر ایک گھڑسوار کی تصویرہے ، جس کے گھوڑے یا سوار کے اعضاء و جوارح کا پتا نہیں چلتا، صرف سائے کی طرح پتا چلتا ہے کہ یہ گھڑ سوار ہے اور دو تین قدم کے فاصلے سے زیادہ دور نظر نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کی مصنوعات میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
بصورتِ مسئولہ شرٹ یا کپڑے پر کمپنی کے لوگو میں کسی جان دار کی تصویر ہو تو ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر تصویر ایسی ہے کہ اعضاء وجوارح کا پتا نہیں چلتا، لیکن جان دار کی حکایت ہورہی ہو تو وہ پھر بھی تصویر کے ہی حکم میں ہے، ناک، کان، ہونٹ نہ ہونے کے باوجود کسی جان دار شے کی شبیہ جان دار کی حکایت ہی ہوتی ہے؛ اس لیے وہ تصویر ہی کے حکم میں ہے اور اس میں پڑھی جانے والی نماز مکروہ ہوگی، البتہ اگر وہ تصویر مٹادی جائے ،چھپالی جائے یا اس کا چہرہ مکمل کاٹ دیا جائے یا تصویر بہت چھوٹی ہو کہ سمجھ نہ آتی ہو یا اس پر سیاہی مل دی جائے تو پھر اس کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہوگا۔
البحر الرائق میں ہے:
" (قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس و محي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة و نحوها أو بنحته أو بغسله و إنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ و لما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره و لا قبراً إلا سواه و لا صورةً إلا لطخها» اهـ.
و أما قطع الرأس عن الجسد مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك و لهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية، قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها و كذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، و في الخلاصة: و كذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس".
(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا2/ 30ط: دار الکتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن