بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسٹیٹ لائف پالیسی کا حکم


سوال

آج سے دو سال قبل میں نے اسٹیٹ لائف انشورنس سے پالیسی لی تھی، جس شخص نے مجھے یہ پالیسی دلوائی اس نے مجھے یہ یقین دلوایا کہ یہ کوئی حرام چیز نہیں ہے ، کچھ دن پہلے میں اسٹیٹ لائف کے آفس گیاتھا وہاں میں نے دیکھا کہ سود کا لین دین ہر چیز میں ہے ، میرا دل مطمئن نہیں ہوا تو میں نے اسے ختم کرنے کے لیے اپلائی کیا، وہاں انہوں نے مجھے ایک چارٹ دکھایا کہ ابھی ختم کرنے میں آپ کو زیادہ نقصان ہے ، دومہینے بعد ایک اور پالیسی بھر کر نقصان ہوگا مگر کم ہوگا۔مجھے ایک تو یہ معلوم کرنا ہے کہ اسٹیٹ لائف پالیسی حرام ہے یا نہیں ؟ دوسرا یہ کہ اگر میں دو مہینے رک کر اسے ختم کراتا ہوں تو کیا مجھے اپنی اصل رقم حاصل کرنے کا حق ہے ؟

جواب

انشورنس کی مروجہ تمام اقسام  بشمول اسٹیٹ لائف انشورنس کے جوئے اور سود کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہیں، لہذا آپ نے جو اسٹیٹ لائف انشورنس پالیسی لی ہے ، اس کو فی الفور ختم کرنے کو کوشش کریں۔ نقصان سے بچنے کے لیے دو ماہ بعد بھی ختم کرسکتے ہیں۔ پالیسی ختم کرنے کی صورت میں آپ کے لیے جمع کرائی اصل رقم  میں سے جس قدر واپس مل سکے ،اس کا استعمال  آپ کے لیے جائز ہوگا۔ 

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «‌هم ‌سواء»."

(كتاب المساقاة،با ب لعن آکل الربا، ومؤکله،ج:3، ص:1219، ط:دار احياء التراث العربي )

"ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(ج:4،ص:483،، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".

( کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:403، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں