بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو پلاٹ خریدتے وقت تجارت کی نیت ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے زکات کے وجوب کا حکم


سوال

(1) میں دو عدد پلاٹ خریدنا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک پر گھر بناؤں گا، جب کہ دوسرا بیچ کر پہلے گھر کی تعمیر (construction)   کروں گا، اس صورت میں دونوں پلاٹوں پر زکات ہوگی یا نہیں؟

(2) اگر میری نیت دونوں کے بارے میں یہ  ہو کہ دونوں پلاٹ خریدنے کے بعد دونوں پر گھر بناکر بیچ دوں گا تو اس صورت میں دونوں پلاٹوں پر زکات ہوگی یا نہیں؟

(3)اگر دونوں پلاٹ خریدتے وقت میری نیت ان کو بیچنے کی نہ ہو ، لیکن بعد میں کسی وجہ سے بیچ دوں تو ایسی صورت میں کیا ان پر زکات ہوگی یا نہیں؟

جواب

(1) اگر آپ نے دو پلاٹ خریدتے وقت ایک پلاٹ پر گھر تعمیر کر کے اس میں رہنے یا کرائے پر دینے کی نیت کی تھی اور دوسرے پلاٹ کو منافع کے ساتھ بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم سے پہلے والے پلاٹ پر گھر تعمیر کرنے کی نیت تھی تو اس صورت میں صرف دوسرے پلاٹ کی مالیت پر زکات ادا کرنا لازم ہوگی، لیکن اگر پہلے پلاٹ پر گھرتعمیر کر کے اسے بیچنے کی نیت ہو  توسال مکمل ہوتے وقت  اس پلاٹ کی تعمیرات سمیت جو مالیت ہو اس پر زکات  ادا کرنا لازم ہوگی ۔

(2)اگر دونوں پلاٹ خریدتے وقت آپ کی نیت ان دونوں پر گھر تعمیر کر کے بیچنے کی ہو تو  دونوں پلاٹوں کی مالیت پر زکات واجب ہوگی اور تعمیر مکمل ہوجائے تو فروخت کیے جانے سے پہلے تعمیر شدہ مکانات کی مالیت پر زکات واجب ہوگی۔

(3)اگر دونوں پلاٹوں کو خریدتے وقت آپ کی نیت ان کو بیچ کر نفع کمانے کی نہ ہو تو ایسی صورت میں ان پلاٹوں پر زکات لازم نہیں ہوگی، بلکہ اس صورت میں اگر خریدنے کے بعد نفع کے حصول کے لیے بیچنے کی نیت ہوجائے یا نفع کے حصول کے لیے بیچ دیا جائے تب بھی ان پلاٹوں کی مالیت پر زکات لازم نہیں ہوگی، البتہ ان کو بیچ کر جو رقم حاصل ہوگی اس پر زکات لازم ہوگی ۔

نوٹ: جن صورتوں میں پلاٹ پر زکات لازم ہوگی اس صورت میں زکات کے وجوب اور ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ خریدے گئے پلاٹ پر سال پورا ہونے کے وقت (یا پہلے سے صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں دیگر اموال کی زکات کی ادائیگی کے وقت) اس پلاٹ یا پلاٹ پر تعمیر شدہ گھر کی اس وقت موجودہ کل قیمت  (میں سے ذمہ پر واجب الاداء قرض وغیرہ منہا کرکے، بقیہ مجموعی مالیت) کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

و فی الرد : (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267):

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 303):

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)".

الفتاوى الهندية (1/ 179):

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

وفیه أیضاً:

"و من کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه ... الخ".

(هندیة، کتاب الزکاة ۱/۱۷۵ ط رشیدیة)

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 19):

" وقالوا: وتشترط نية التجارة في العروض ولا بد أن تكون مقارنةً للتجارة، فلو اشترى شيئاً للقنية ناوياً أنه إن وجد ربحاً باعه لا زكاة عليه ... وفي السائمة لابد من قصد إسامتها للدر والنسل أكثر الحول، فإن قصد به التجارة ففيها زكاة التجارة إن قارنت الشراء، وإن قصد به الحمل والركوب أو الأكل فلا زكاة أصلاً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 272):

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها.

 (قوله: أي عبد) خصه بالذكر ليناسب قوله فنوى خدمته، وأشار بقوله مثلا إلى أن العبد غير قيد، لكن الأولى أن يقول بعده فنوى استعماله ليعم مثل الثوب والدابة، ولا بد من تخصيصه بما تصح فيه نية التجارة ليخرج ما لو اشترى أرضا خراجية، أو عشرية ليتجر فيها فإنها لا تجب زكاة التجارة كما يأتي ونبه عليه في الفتح (قوله: فنوى بعد ذلك خدمته) أي، وأن لا يبقى للتجارة لما في الخانية عبد التجارة: إذا أراد أن يستخدمه سنتين فاستخدمه فهو للتجارة على حاله إلا أن ينوي أن يخرجه من التجارة ويجعله للخدمة. اهـ. (قوله: ما لم يبعه) أي أو يؤجره كما في النهر وغيره، وبدله من قسم الدين الوسط فيعتبر ما مضى أو يعتبر الحول بعد قبضه على الخلاف الآتي في بيان أقسام الديون (قوله: بجنس ما فيه الزكاة) فلو دفعه لامرأته في مهرها أو دفعه بصلح عن قود أو دفعته لخلع زوجها لا زكاة لأن هذه الأشياء لم تكن جنس ما فيه الزكاة ط (قوله: والفرق) أي بين التجارة حيث لا تتحقق بالفعل وبين عدمها. بأن نواه للخدمة حيث تحقق بمجرد النية ط (قوله فيتم بها) لأن التروك كلها يكتفى فيها بالنية ط. ونظير ذلك المقيم والصائم والكافر والعلوفة السائمة، حيث لايكون مسافرًا ولا مفطرًا ولا مسلمًا ولا سائمةً ولا علوفة بمجرد النية وتثبت أضدادها بمجرد النية زيلعي، لكن صرح في النهاية والفتح بأن العلوفة لاتصير سائمةً بمجرد النية بخلاف العكس. ووفق في البحر بحمل الأول على ما إذا نوى أن تكون السائمة علوفة، وهي باقية في المرعى إذ لا بد من العمل، وهو إخراجها من المرعى لا العلف، وحمل الثاني على ما إذا نوى بعد إخراجها منه".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں