بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکات


سوال

میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں، میں نے ایک پلاٹ دس لاکھ کا لیا ہے، اور دوسرا پلاٹ بھی دس لاکھ کا لیا ہے، جس کی  چار لاکھ ادائیگی باقی ہے، دونوں پلاٹ اس نیت سے لیے  ہیں کہ دونوں کو فروخت کرکے اپنے  لیے گھر لوں گا؛ کیوں کہ گھر لینے کے ایک ساتھ پیسے نہیں ہوسکتے، میرے بینک اکاؤنٹ  میں فی الحال پیسے نہیں ہیں، ایسی صورت میں کیا  مجھ پر ان پلاٹ کی زکات ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ پلاٹ  چوں کہ فروخت کرنے کی نیت سے خریدے ہیں، لہذا ان  پر زکات واجب ہوگی، زکات کا سال پورا ہونے پر ان کی موجودہ قیمت معلوم کرکے اس کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) بطور زکات ادا کرنا ہوگا، البتہ واجب الادا چار لاکھ روپے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ  کئی سالوں کی قسطوں میں ادا کرنے ہیں تو زکات کی تاریخ تک واجب الادا قسطیں منہا کرکے زکات کا حساب کرنا ہوگا، اور اگر چار  لاکھ کا قرضہ قسطوں کی صورت میں نہیں ہے تو  حساب  لگاتے ہوئے پورے قرض کو منہا کرکے حساب کیا جائے گا۔  فی الحال اگر نقدی موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں زکات کا حساب لگا کر سال بھر میں قسطوں میں زکات ادا کر لی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں