ایک(صاحب نصاب) سرکاری ملازم کو حکومت کے طرف سے 10 سال پہلے ایک پلاٹ ملا تھا جو اس نے گھر بنانے کے غرض سے ابھی تک رکھا تھا لیکن ابھی اس نے بیچ دیا۔ اس سے جو پیسہ آیا وہ چار 4 جگہوں میں لگایا۔
1۔پرانے کاروبار کے ساتھ شریک کیا۔
2۔نیا پلاٹ کاروبار کی نیت سے لیا۔
3۔نیا کاروبار شروع کیا۔
4۔گھر بنانے کے لیے کسی سے امانت کے طور پر رکھا۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ اس بندے پر زکات کب اور کون کون سے پیسوں سے ادا کرنا ہوگا، یاد رہے کہ یہ بندہ پہلے سے صاحب نصاب ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ صاحبِ نصاب شخص نے مذکورہ پلاٹ کو بیچ کر اس کی رقم جو پرانے کاروبار میں لگائی یا کاروبار کے لیے نیا پلاٹ خریدا یا نیا کاروبار شروع کیا یا کسی کے پاس بطور امانت رقم رکھی ہیں اس پوری رقم کی زکاۃ بھی باقی مال کی زکاۃ ادا کرتے وقت ادا کرنی لازم ہے، اس مال پر الگ سے سال کا گزرنا ضروری نہیں ، بلکہ یہ شخص پہلی بار جس دن صاحبِ نصاب بنا تھا اس دن ہی اس مال کی بھی زکاۃ ادا کرے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267):
"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحًا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالةً بأن يشتري عينًا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحًا".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208201293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن