بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکات کا حکم


سوال

میں نے نومبر 2023 میں پلاٹ خریدا ہے ،کیا مجھے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

جواب

1۔اگر پلاٹ یا زمین تجارت کی نیت سے خریدا ہے، یعنی خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت تھی، تو اس صورت میں اس کی قیمت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت )کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس  پر ہر سال زکوۃ فرض ہوگی ،  اور ہر سال مارکیٹ میں جو فروخت کی قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہوگا ، اور اس سے ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنالازم ہوگا۔

2۔مثلا ایک پلاٹ ایک لاکھ میں خریدا تھا، سال مکمل ہونے پر اسکی قیمت دولاکھ ہوگئی، تو زکوۃ دولاکھ سے دینی ہوگی ، اور اگر دوسرے سال پانچ لاکھ قیمت ہو گئی تو پانچ لاکھ کی زکوۃ دینا لازم ہوگا ۔ 

3۔ اگر پلاٹ یا زمین تجارت کی نیت سے نہیں لی بلکہ اپنی ذاتی ضرورت کے لئے یا ذاتی مکان بنانے کی نیت سے لی ہے یا اولاد کے لیے لی تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔ 

4۔اور اگر پلاٹ یا زمین اس لئے لی ہے کہ رقم محفوظ ہو جائے تو اس صورت میں اس پر زکوۃ واجب ہوگی ، یعنی ہر سال مارکیٹ میں جو قیمت فروخت ہوگی اس سے ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنالازم ہوگا ۔ 

5۔ اگر پلاٹ اس لئے خریدا ہے کہ فروخت کر کے بچوں کی شادی کرائے گا تو اُس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی ۔

6۔اگر پلاٹ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی، بعد میں فروخت کرنے کا ارادہ ہو گیا تو جب تک اس کو فروحت نہیں کیا جائے گا، اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ 

7۔جو پلاٹ رہائشی مکان تعمیر کرنے کیلئے خریدا ہے، اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکوہ  صورتوں میں سے کوئی وجوبِ زکات کی صورت پائی جاتی ہو اور اس پرپورا ایک سال گزر جائے تو  زکات واجب ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة ."

( كتاب الزكاة  ، ج : 2 ، ص : 267 ، ط : سعيد كراچي)

وفيها ايضا:

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها (وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل."

(كتاب الزكاة ، ج : 2 ، ص : 272/73 ، ط : سعيد كراچي)

فتح القدير میں  هے :

"(الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول)."

(كتاب الزكاة ، ج :2 ، ص : 153 ، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وحاصله أنها قسمان خلقي وفعلي فالخلقي الذهب والفضة۔۔۔ وهي متعينة للتجارة بأصل الخلقة فتجب الزكاة فيها نوى التجارة، أو لم ينو أصلا، أو نوى النفقة، والفعلي ما سواهما فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة ‌بالنية إذا كانت عروضا، ۔۔۔ ثم ‌نية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة والإسامة ثم ‌نية التجارة قد تكون صريحا، وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك به للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة، وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو من العروض فلو نوى أن يكون للبذلة لا يكون للتجارة وإن كان الثمن من النقود."

(البحرالرائق شرح كنز الدقائق  ،كتاب الزكاة ،ج:2 ،ص:366 ،ط:دار الكتب العلمية )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509101642

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں