بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکات


سوال

میں نے ایک پلاٹ خریدا دس لاکھ روپے کا اور پھر دس لاکھ خرچ کرکے تعمیر کروائی  کل قیمت بیس لاکھ ہوئی پھر دو سال بعد میں نے اس پلاٹ کو 30لاکھ پر فروخت کیا اب میں  بیس لاکھ کے حساب سے زکوہ ادا کرو ں یا تیس کے حساب سے  ادا کروں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ  میں    اگر آپ نے پلاٹ نفع پر فروخت کرنے کے ارادے  سے لیا تھا تو  جس دن آپ زکات  اداکرتے  ہیں، اگر اس تاریخ پر  یہ پلاٹ آپ کی ملکیت میں تھا تو اس تاریخ کو   اس پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے زکات ادا کرنا شرعاً لازم  ہے، اور  اب جب کہ پلاٹ فروخت کر  دیا ہے اور تیس لاکھ روپے نقد موجود ہیں، تو زکوٰۃ کی تاریخ آنے پر تیس لاکھ پر  یا جتنی رقم اس وقت باقی ہو، اسی کل رقم پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح."

(كتاب الزكوة، باب زكوة الغنم، ج: ۲، ص:۲۸۵، ط:ايج ايم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100557

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں