ایک بندہ جو کہ کرائے کے گھر میں رہتا ہے، اور اس نے کچھ سال پیسے جمع کر کے ایک پلاٹ خریدا، لیکن اس کے پاس اس کو بنانے کے پیسے نہیں، وہ پلاٹ خالی پڑا ہے اور اس کا روزگار وین چلانا ہے، جو کہ اسکول بند ہونے کی وجہ سے بند ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس پر پلاٹ کی وجہ سے قربانی فرض ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ پلاٹ رہائش اختیار کرنے کی نیت سے خریدا تھا تو اس صورت میں اس پلاٹ کی وجہ سے نہ اس پر زکات واجب ہوگی اور نہ ہی قربانی، البتہ اگر مذکورہ پلاٹ آگے فروخت کرنے کی نیت سے خریدا ہو تو اس صورت میں مذکورہ پلاٹ کی وجہ سے زکات بھی واجب ہوگی اور قربانی بھی، بشرطیکہ مذکورہ پلاٹ کی مالیت نصاب سے زیادہ ہو، اور اس شخص کے ذمہ قرض نہ ہو، یا قرض منہا کرنے کے بعد بھی نصاب کے بقدر مالیت بنتی ہو۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:
وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لويدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم' (٦ / ٣١٢ )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201140
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن