بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کی زکاۃ


سوال

میرے پاس پلاٹ ہے میں نے تجارت کی نیت سے نہیں خریدا،اب دو سال بعد مجھے پیسوں کی ضرورت پڑی، میں نے یہ پلاٹ  فروخت کردیا، اب اس کی زکوة کس طرح ادا کروں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر آپ نے ان پلاٹ کو خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں کی تھی ، تو اس میں (فروخت کرنے تک کی) زکاۃ واجب نہیں ہے۔البتہ جب آپ نے اس کو بیچ دیا تو اس وقت  اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب تھے، تو زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر دیگر اموال کی زکاۃ کے ساتھ اس رقم(میں سے جو سال پورا ہونے پر موجود ہو اس) کی بھی زکاۃ ادا کرنا ہوگی۔ اور اگر آپ پلاٹ بیچنے کے وقت صاحبِ نصاب نہ تھے، اورپلاٹ بیچنے کے بعد اس کی مالیت کی وجہ سے آپ صاحبِ نصاب ہوگئے، تو پلاٹ کی فروخت کے بعد سال پورا ہونے پر جتنی نقد رقم (سونا، چاندی اور مالِ تجارت اگر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ) موجود ہو اس کے مجموعے پر زکاۃ واجب ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة ..." الخ

(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۴،ط: سعید )

موسوعہ فقہیہ میں ہے:

" اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم".

(الموسوعة الفقهية الكويتية ،باب: زكاة،شروط المال الذي تجب فيه الزكاة:القسم الثاني: الأصناف التي تجب فيها الزكاة وأنصبتها،شروط وجوب الزكاة في العروض، الشرط الثالث: نية التجارة،(23/ 271)،دارالسلاسل - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں