بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کرائے پر دیا ہے اور بیچنے کی نیت ہے تو زکات کا حکم


سوال

بکر کے پاس ایک فلیٹ ہے، جسے بیچنے کے  لیے  وہ کوشاں ہے۔ مگر جب تک بک نہ جائے اس وقت تک کے  لیے اس نے اسے  کرائے پر اٹھایا ہوا ہے،  لیکن بیچنے کی نیت تبدیل نہیں ہوئی ہے،  بلکہ ہنوز برقرار ہے، جیسے ہی اسے کوئی خریدار ملے گا وہ اسے بیچ دے گا۔ سوال یہ ہے کہ فقہ حنفی کی رو سے اس فلیٹ کی قیمت پر زکات ہوگی یا نہیں؟ اور کیا بیچنے کی نیت کا اعتبار ہوگا یا صرف وقتی طور پر  کرائے پر اٹھے ہونے کا اعتبار ہوگا؟

جواب

 صورتِ مسئولہ  میں سائل چوں کہ  عملًا فلیٹ کرائے پر دے چکا ہے تو  فوری طور پر بیچنے کی نیت نہیں ؛ اس لیے اس  پراپرٹی کی  مالیت پر  زکات لازم نہیں ہے،  البتہ اگر حاصل ہونے والا کرایہ جمع ہو اور  پراپرٹی کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا جمع شدہ کرایہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو  اور واجب الادا اخراجات سے زائد ہو تو سالانہ اس پر  زکات ادا کرنا لازم  ہوگا۔ اور اگر کرایہ خرچ ہوجاتاہو، پس انداز نہ ہو تو اس کرائے پر  زکات نہیں ہوگی۔

الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۹۴:

"لا زکاة في اللآلیٴ و الجواهر و إن ساوت ألفاً اتفاقاً إلا أن تکون للتجارة،و الأصل أن ما عدا الحجرین و السوائم إنما یزکي بنیة التجارة ... الخ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 267):

"(أو نية التجارة) في العروض".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں