بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ خریدنے کے بعد بیچنے کی نیت کرنے سے زکوۃ کا حکم


سوال

 پانچ سال پہلے بندے نے پلاٹ خریدا اس وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی، دو سال بعد اس کا ارادہ بن گیا اس پلاٹ کو بیچنے کا،  اور تین سال بعد اس نے پلاٹ بیچ دیا۔ مطلب پلاٹ خریدے ہوئے پانچ سال ہو گئے،  دو سال اس کا ارادہ نہیں تھا بیچنے کا، اور تیسرے سال اس کا ارادہ بن گیا،  یوں پانچ سال بعد اس نے بیچ دیا۔ مہربانی فرما کر راہنمائی کریں کہ اس پلاٹ پر زکوۃ  کیسے دینی ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر پلاٹ خریدتے وقت تجارت کی نیت نہیں تھی، بلکہ بعد میں فروخت  اور تجارت کا ارادہ ہوگیاتوجب تک اس کو فروخت نہیں کیاجائےگا، اس پر  زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

لہذا صورت مسئولہ میں  فروخت کرنے کے بعد جو رقم ہوگی اس پر حسب شرائطِ زکوۃ لازم ہوگی ۔ یعنی سائل اگر پہلے سے صاحب نصاب ہو تو بیچنے کے بعد جو رقم ہوگی دیگر اموال کے ساتھ مذکورہ  رقم کی بھی زکوۃ دےگا، اور اگر پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو تو  پھر  قمری مہینوں کے اعتبار سے اس مال پر سال مکمل ہونے کے بعد ڈھائی فیصد  زکوۃ دینا لازم ہوگا۔

ہدایہ میں ہے:

"ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة  '  لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة '  وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة '  لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر."

(كتاب الزكاة، ج: 1، ص: 203، ط: رحمانية)

الدر المختار میں ہے:

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها."

(شامي، كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 272، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں