بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کے مالک کو زکاۃ دینا


سوال

ایک شخص زکاۃ کے نصاب کا مالک نہیں ہے، رہنے کے لیے اپنا مکان ہے لیکن چھوٹا ہے, اس نے اپنے برابر میں مکان کو بڑھانے کے لیے چھوٹا سا پلاٹ خرید رکھا ہے، لیکن وہ پلاٹ ابھی مکان میں شامل نہیں کیا. اگر یہ پلاٹ نا ہوتا تو وہ مستحقِ زکاۃ ہوتا. سوال یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ پلاٹ اس کی بنیادی ضروریات میں شمار کیا جائے گا اور وہ مستحقِ زکاۃ ہوگا یا پھر یہ پلاٹ بنیادی ضروریات سے زائد شمار ہوگا اور وہ مستحق زکاۃ نا رہے گا؟

جواب

جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر  مکان سے متصل پلاٹ اس نے ذاتی رہائش کی نیت سے لیا ہے تو وہ ضرورت و استعمال میں شامل ہوگا، اور اس پلاٹ کے ہونے سے وہ صاحبِ نصاب نہ بنے گا، اور اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں