بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ، فلیٹ اور گاڑی وغیرہ پر زکات کا حکم، مقدار، قیمتِ خرید یا قیمتِ فروخت کے اعتبار کرنے اور ادائیگی کے وقت کا بیان


سوال

پلاٹ  پر زکات ہوگی اگر بیچنے کی نیت سے خریدا ہے تو؟ اور کتنی ہوگی؟ اور اس کا حساب  کیسے  لگایا  جاۓگا؟ مثال کے طور پر جب خریدا تو دس لاکھ کا تھا اور ابھی مارکیٹ ویلیو بیس لاکھ ہے، پر بیچنے کا ارادہ ابھی نہیں ہے تو اس پر زکات دینی ہوگی؟ کب دینی ہوگی؟ ابھی نقد کی صوررت میں پیسے نہیں ہیں اور قرض دار بھی ہوں، تنخواہ  بھی بند ہے، اس کے علاوہ ایک گاڑی  ہے گھر کے استعمال کے  لیے، پر اگر ضروت پڑنے پر اسی ایک گاڑی کو بیچ کر دوسری لی کچھ منافع ہوا  جو بھی نصاب کے حساب سے نہیں ہے، گاڑی کی مالیت ساڑھے پانچ لاکھ کم و بیش ہوگی،  پرانی گاڑی ہے گھر کے استعمال میں بھی  یہ ایک گاڑی ہے۔ ایک فلیٹ ہے جس پر ابھی بلڈر  نے ابھی کنسٹرکشن شروع نہیں کی ہے بالفرض اس وقت دس لاکھ کا تھا ابھی مارکیٹ ویلیو پچیس لاکھ ہے تو اگر اس کو بیچوں تو زکات ہوگی؟ اگر ہوگی تو کتنی؟ اس کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ 

جواب

زکات کی فرضیت کا ضابطہ یہ ہے کہ جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے  سات تولہ سونا، یا ساڑھے  باون تولہ چاندی یاساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ( جو حاجت اصلیہ سے زائد ہو )  یا مالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یا زائد کامجموعہ  ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی  کی قیمت کے برابر پہنچتی ہو اور  وہ شخص مقروض بھی  نہ ہوتو ایسا شخص صاحبِ  نصاب شمار ہوتا ہے، اور اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں اس پر  زکات واجب ہوتی ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں جو پلاٹ یا فلیٹ وغیرہ تجارت (یعنی منافع کے حصول کے  لیے بیچنے) کی نیت سے خریدا ہو اس پر سال پورا ہونے کے وقت (یا پہلے سے صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں دیگر اموال کی زکات کی ادائیگی کے وقت) اس پلاٹ یا فلیٹ وغیرہ کی موجودہ کل قیمت  (میں سے قرض وغیرہ منہا کرکے، بقیہ مجموعی مالیت) کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکات ادا کرنا لازم ہوگا، جو گاڑی یا فلیٹ (مکان) وغیرہ تجارت (یعنی منافع کے حصول کے  لیے بیچنے) کی نیت سے نہیں خریدا گیا ہو اس پر زکات لازم نہیں ہوگی، البتہ ان اشیاء کو بیچنے کی صورت میں جو پیسے حاصل ہوں گے ان پر سال پورا ہونے یا نصاب پر سال پورا ہونے کے وقت اس رقم میں سے جتنی موجود ہو  (اور قرض اور ضروری اخراجات سے زائد ہو) اس کی بھی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہوگی۔

اگر آپ نے فلیٹ ذاتی رہائش کے لیے خریدا تھا یا خریدتے وقت کوئی نیت متعین نہیں تھی تو جب تک آپ اسے بیچ نہیں دیتے اس کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اور پلاٹ چوں کہ آپ کی صراحت کے مطابق آپ نے بیچنے کی نیت سے خریدا تھا، اس لیے اس کی موجودہ مالیت پر زکات واجب ہوگی، البتہ قرض اور بنیادی ضروری اخراجات کی رقم اس سے منہا کرکے زکات واجب ہوگی۔اور گاڑی جو گھر کی ضرورت و استعمال کے لیے ہے، اس کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہے، ہاں آپ اسے بیچ دیں اور زکات کا سال پور اہونے پر اس میں سے رقم محفوظ ہو جو قرض اور بنیادی اخراجات سے زائد ہو، زکات  واجب ہوگی۔

سال مکمل ہونے پر زکات کا حساب کرنے کے بعد جلد سے جلد زکات ادا کردینی چاہیے، البتہ یک مشت زکات ادا کرنا چوں کہ شرعاً ضروری نہیں، اس  لیے تھوڑی تھوڑی  کرکے ادا کرنے کی اجازت ہے، لیکن زکات ادا کرنے میں بلاعذر تاخیر کرنا مکروہ ہے، اگر سال سے زیادہ بلاعذر تاخیر  کی تو ایک قول کے مطابق گناہ گار ہوگا، البتہ  اگر عذر (مثلا نقدی پاس نہ ہونے) کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو  گنجائش ہوگی، اور عذر  زائل ہوتے  ہی اس کو جلد از جلد ادا کردینا چاہیے؛ کیوں کہ زکات دینی فریضہ ہے اور اس سے جلد سبک دوشی افضل ہے، نیز زکات کا مقصد غریب کی ضرورت پوری کرنا ہے جو کہ فوری ہے؛ اس  لیے زکات بھی فوری ادا کردینی چاہیے؛ تاکہ غریب شخص کی حاجت بروقت پوری ہوسکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زکات فرض ہونے کے بعد ایک سال گزرنے سے پہلے ادا کردینے کی صورت میں بالاتفاق گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ جتنا جلد ادا کردی جائے اتنا ہی افضل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 258):

’’ (وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية) والعلم به ولو حكما ككونه في دارنا (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 267):

’’ (وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 303):

’’ (وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة).‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 271):

’’(وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية  (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر (وترد شهادته) لأن الأمر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور وهي أنه لدفع حاجته وهي معجلة، فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الإيجاب على وجه التمام، وتمامه في الفتح

(قوله: وافتراضها عمري) قال في البدائع وعليه عامة المشايخ، ففي أي وقت أدى يكون مؤديا للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب، وإذا لم يؤد إلى آخر عمره يتضيق عليه الوجوب، حتى لو لم يؤد حتى مات يأثم واستدل الجصاص له بمن عليه الزكاة إذا هلك نصابه بعد تمام الحول والتمكن من الأداء أنه لا يضمن، ولو كانت على الفور يضمن كمن أخر صوم شهر رمضان عن وقته فإن عليه القضاء. (قوله: وصححه الباقاني وغيره) نقل تصحيحه في التتارخانية أيضًا (قوله: أي واجب على الفور) هذا ساقط من بعض النسخ، وفيه ركاكة لأنه يئول إلى قولنا: افتراضها واجب على الفور مع أنها فريضة محكمة بالدلائل القطعية. وقد يقال: إن قوله افتراضها على تقدير مضاف أي افتراض أدائها، وهو من إضافة الصفة إلى موصوفها فيصير المعنى أداؤها المفترض واجب على الفور: أي أن أصل الأداء فرض، وكونه على الفور واجب، وهذا ما حققه في فتح القدير من أن المختار في الأصول أن مطلق الأمر لا يقتضي الفور ولا التراخي بل مجرد الطلب فيجوز للمكلف كل منهما لكن الأمر هنا معه قرينة الفور إلخ ما يأتي (قوله: فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل (قوله: وهي) أي القرينة أنه أي الأمر بالصرف (قوله: وهي معجلة) كذا عبارة الفتح. أي حاجة الفقير معجلة أي حاصلة (قوله: وتمامه في الفتح) حيث قال بعد ما مر: فتكون الزكاة فريضة وفوريتها واجبة فيلزم بتأخيره من غير ضرورة الإثم كما صرح به الكرخي والحاكم الشهيد في المنتقى؛ وهو عين ما ذكره الإمام أبو جعفر عن أبي حنيفة أنه يكره، فإن كراهة التحريم هي المحمل عند إطلاق اسمها، وقد ثبت عن أئمتنا الثلاثة وجوب فوريتها، وما نقله ابن شجاع عنهم من أنها علي التراخي فهو بالنظر إلى دليل الافتراض أي: دليل الافتراض لايوجبها، وهو لاينفي وجود دليل الإيجاب. وعلى هذا قولهم: إذا شك هل زكى أو لا يجب عليه أن يزكي لأن وقتها العمر، فالشك حينئذ كالشك في الصلاة في الوقت اهـ ملخصًا‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں