بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنے استعمال کے لیے پلاٹ خریدا پھر اس کو بیچا تو اس کی پیمنٹ پر زکات لازم ہوگی یا نہیں؟


سوال

میں نے 2011ء میں ایک پلاٹ بک کیا تھا اور 2020ء میں اس کی قسطیں پوری کر دی تھیں، اس وقت مجھے اس کی ملکیتی سرٹیفیکیٹ مل گئی تھی، شروع میں میری نیت یہ تھی کہ اس پلاٹ میں اپنے لیے مکان تعمیر کرواؤں گا ،لیکن بعد میں جولائی 2021ء میں میں نے ارادہ بدل لیا، اور اس پلاٹ کو بیچنے کے لیے لوگوں سے رابطہ شروع کیا، اور ٓخر کارمارچ 2023ء  میں فروخت کر دیا، اب سوال یہ ہے کہ اس پلاٹ کو فروخت کرکے میرے ذمہ کتنی زکات  لازم ہوگی؟

جواب

اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہے (یعنی اس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، یا  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر ہو) تو مذکورہ پلاٹ سے حاصل ہونے والی رقم اگر زکوٰۃ نکالتے وقت کل یا بعض موجود ہوگی تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی،  اس صورت میں پلاٹ کی قیمت پر الگ سے سال گزرنا ضروری نہیں، بلکہ دیگر اموال کے ساتھ اس کو ملاکر زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اور اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں تھا تو  مذکورہ پلاٹ کی قیمت پر قمری مہینوں کے اعتبار سے  سال گزرنے پر اس میں سے ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، بشرطیکہ سال پورا ہونے پر بقدرِ نصاب مال موجود ہو، اور اس صورت میں سال کا حساب اس دن سے لگایا جائے گا جس دن سائل نے پلاٹ بیچا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم...(واللازم) مبتدأ (في مضروب كل) منهما (ومعموله ولو تبرا أو حليا مطلقا) مباح الاستعمال أو لا ولو للتجمل والنفقة؛ لأنهما خلقا أثمانا فيزكيهما كيف كانا (أو) في (عرض تجارة قيمته نصاب) الجملة صفة عرض وهو هنا ما ليس بنقد،  (من ذهب أو ورق) أي فضة مضروبة، فأفاد أن التقويم إنما يكون بالمسكوك عملا بالعرف (مقوما بأحدهما) إن استويا، فلو أحدهما أروج تعين التقويم به؛ ولو بلغ بأحدهما نصابا دون الآخر تعين ما يبلغ به، ولو بلغ بأحدهما نصابا وخمسا وبالآخر أقل قومه بالأنفع للفقير سراج (ربع عشر) خبر قوله اللازم."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج:2، ص:299، سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما)."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج: 2، ص: 302، ط: سعيد)

الدر المختار مع رد المحتار  میں ہے:

"(اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها)."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 272، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں