بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کھلاڑیوں کو ملنے والی تنخواہ کا حکم


سوال

انٹرنیشنل کھلاڑی جو کرکٹ فٹ بال ہاکی وغیرہ کھیلتے ہیں، ان کو میچ کھیلنے پر میچ فیس ملتی ہے اور ماہانہ تنخواہ بھی ملتی ہے، تنخواہ بذریعہ متعلقہ بورڈ ملتی ہے، اور حکومت دیتی ہے (جیسے: پی سی بی پاکستانی کرکٹرز کو تنخواہ دیتی ہے)۔ کیا یہ میچ فیس لینا، اور یہ ماہانہ تنخواہ جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح کسی اکیڈمی کی طرف سے، یا کسی کلب سے کھیلنے والے کھلاڑی بھی ماہانہ تنحواہ (کلب سے ) اور میچ فیس ( ٹورنامنٹ آرگنائزر سے ) لیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

واضح رہے کہ اچھا کھلاڑی تب بنتا ہے، جب وہ خود پر محنت کرتا ہے اور کافی پیسے خرچ کرتا ہے اور اپنا کافی سارا وقت اسی میں لگاتاہے، پھر کہیں جاکر وہ کسی کلب یا انٹرنیشنل ٹیم کا حصہ بنتا ہے، اور مذکورہ بالا تنخواہ یا میچ فیس کا حق دار ٹھہرتا ہے۔

جواب

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، پھر فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

 اصولوں   کی رو  سے موجودہ دور کے اکثر و بیشتر کھیل ناجائز اور غلط نظر آتے ہیں، اس لیے کہ بعض کھیل تو ایسے ہیں کہ  جن میں ایسے لباس کا  انتخاب کیا جاتا ہے جس سےانسان کے اعضاءِ مستورہ نظر آتے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جس سے اعضاء مستورہ کا حجم نمایاں ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں جن میں قمار اور جوا پایا جاتا ہے، اور بعض میں مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے، بعض ایسے ہیں  جن  میں  نہ کوئی دینی  منفعت ہوتی ہے اور نہ ہی دنیوی، مزید  یہ کہ جیسے ہی ان کھیلوں کا  زمانہ آتا ہے ، کھیل کے شوقین حضرات اپنے شرعی فرائض چھوڑ کر  اسی میں مشغول ہوجاتے ہیں ، کھیل کا ایسا ذوق پیدا کردیا گیا ہے کہ گویا ہمارے نوجوان  صرف  کھیلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں ، کھیل ہی کو زندگی کا بنیادی مقصد بنادیا گیا ہے۔

اب کھلاڑیوں کو جو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے یا ہر میچ کے کھیلنے پر جو رقم دی جاتی ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مذکورہ کھلاڑی کسی کمپنی کے ملازم ہیں (مثلاً پی آئی اے وغیرہ) اور کھیل کے زمانہ میں یہ ملازم اپنے ادارے کی طرف سے کھیلنے جاتے ہیں اور کمپنی  انہیں ملازم ہونے کی حیثیت سے اجرت دیتی ہے توان کے لیے  اجرت وصول کرنا جائز ہے۔

اور اگر یہ کھلاڑی کسی کمپنی کے ملازم نہیں ہیں، بلکہ کھیل ہی کو ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے، اور کھیل ہی کی اجرت لیتے ہیں تو  ایسی صورت میں ان کی تنخواہیں جائز نہیں ہیں، یہی حکم کلب کی طرف سے کھیلنے والوں کے لیے بھی ہو گا۔

باقی جو رقم یا چیز انعام کی صورت میں کھلاڑیوں کو دی جاتی ہیں اگر اس انعام کے لیے کوئی  کمیٹی ہو  جس کا تعلق کسی کھلاڑی سے نہ ہو،  اور وہ کمیٹی  جیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل بااختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہےنقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ  شرعی حدود سے تجاوز  نہ کیا جائے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

 (کتاب الجہاد، جلد:1، صفحہ:363، طبع: رحمانیہ)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

" لا يجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد.

وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك.

وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلا ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها".

(كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، جلد:2، صفحه: 384، طبع: المطبعة العامرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں