بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ میں ہبہ تام ہونے کا طریقہ


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام  مذکورہ مسئلہ  کے بارے میں:

کل (36)  کنال زمین اسطرح موجود ہے کہ ایک پلاٹ کی طرح ہے،  دیکھنے والے کو یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ (36)  کنال کا ایک پلاٹ ہے، مشتاق کے کل چار  بیٹے اور چار  بیٹیاں ہیں ۔مشتاق (والد) فوت ہوچکا ہے جس میں سے (24) کنال زمین چار بیٹوں کے نام ہبہ ہے اور باقی زمین (12) کنال وراثت کی ہے جس میں مشتاق کے چار بیٹیاں اور چار بیٹے شریک ہیں ۔بہنوں کا دعوی ہے کہ (24) کنال زمین ہبہ تام نہیں ہے ۔ہبہ اس وقت تام ہوتا جب والد بیٹوں کو 24 کنال زمین الگ الگ کر کے دیتے مالک بنا کر جاتے ۔اور ہر بیٹے کو اپنا حصہ متعین کر کےحد بندی لگا کر دیتے لیکن والد صاحب نے الگ الگ کر کے حد بندی لگا کر زمین نہیں دی تھی۔اور بارہ کنال زمین وراثت والی کو ہبہ والی چوبیس کنال زمین سے الگ کر کے جاتے حد بندی لگا جاتے لیکن والد نے ایسا نہیں کیا ۔ کیا یہ ہبہ شرعی طور پر جائز اور تام ہے ؟ شریعت میں ہبہ میں قبضہ سے کیا مراد ہوتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے  کہ واہِب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، صرف نام کردینے سے  شرعاً ہبہ درست نہیں ہوتا، نیز ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   زمین کے قبضہ کے تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب (مالک) موہوبہ پلاٹ کی تقسیم اور حد بندی کرکے ہر موہوب لہ کو مکمل تصرف کے ساتھ زمین دیدےاس طرح موہوبہ چیز موہوب لہ کے لیے گفٹ ہوجائے گا، اور واہب کی ملکیت ختم ہوجائےگی۔

صورتِ مسئولہ میں جب والد مرحوم نے زمین کی حد بندی اور تقسیم کر کے ہر ایک کا حصہ عملی طور پر ہر ایک کے حوالہ کئے  بغیرمذکورہ پلاٹ میں سے کچھ حصہ محض اپنے بیٹوں کے نام کی ہےتو اس سے ہبہ تام نہیں ہوا، وہ پلاٹ والدمرحوم ہی کی ملکیت تھی، لہذا ان کے  انتقال کے بعد یہ مکمل پلاٹ بطورِ میراث تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:ایچ ایم سعید)

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"والأحسن أن يستدل على اشتراط القبض في الهبة بما أخرجه البيهقي من حديث عبد ا ابن وهب أنا مالك ويونس وغيرهما أن ابن شهاب أخبرهم عن عروة عن عائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - " أن أبا بكر - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - نحلها جذاذ عشرين وسقا من مال الغابة، فلما حضرته الوفاة قال: والله يا بنية ما من الناس أحد أحب إلي غنى بعدي منك ولا أعز علي فقرا بعدي منك، إلا أني كنت نحلتك من مالي جذاذ عشرين وسقا، فلو كنت جذذته واحترزت به كان لك ذلك، وإنما هم أخواك وأختاك فاقتسموه على كتاب الله عز وجل.. الحديث، كذا رواه الطحاوي في شرح الآثار وقال: حدثنا يونس أخبرنا ابن وهب أن مالكا حدثه ... إلى آخره، فهذا أدل دليل على اشتراك القبض وبه استدل في " المبسوط " وأصحاب الشافعي في كتبهم.

قوله: نحلها، أي وهب لها، والجذاذ بكسر الجيم من جذذت الشيء أجذه بالضم جذا قطعته، وروي جاذ عشرين وسقا.

قال الخطابي: الجاذ بمعنى المجذوذ فاعل بمعنى مفعول والوسق ستون صاعا. والغابة بالغين المعجمة وبعد الألف باء موحدة مخففة وهو موضع مشهور بالمدينة، وفي رواية من ماله بالعالية، وهو أيضا موضع بالمدينة".

(کتاب الهبة، باب حکم الهبة، ج:10، ص:161، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں