بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ خریدنے کی صورت میں قسطوں کی مد میں جمع ہونے والی رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

میرے والد گرامی نے سرکاری سکیم کے تحت قسطوں پر ایک پلاٹ خریدا تھا،  جس کی قسطیں 2014 میں مکمل ہوئی تھیں،  لیکن ابھی تک صرف ایک  لیٹر ملا ہے کہ فلاں محلہ میں فلاں پلاٹ نمبر آپ کا ہے،  لیکن وہاں پر ابھی سوسائٹی کا نام ہے لیکن تیار نہیں ہوئی، یعنی پلاٹ نہیں ہے،  ادارے والوں سے پلاٹ کے حوالے سے معلومات لیں  تو کہتے ہیں آپ کا نمبر (1502) ہے،  یعنی (1501) افراد کو پلاٹ ملنے کے بعد آپ کو ملے گا،  اب اس صورت میں جو رقم جمع ہوئی ہے،  جو پلاٹ ہے، اس پر زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  جو پلاٹ قسطوں پر خریدا جائے، خریدار اس کا مالک بن جاتا ہے، چاہے  پلاٹ پر قبضہ ہو یا نہ ہو، لہذا  قسطوں کی مد میں جمع شدہ رقم پر زکوۃ نہیں ہے،البتہ  پلاٹ اگر تجارت کی نیت سے خریدا گیا ہے،  تو سال پورا ہونے پر حسبِ شرائط زکوۃ  اس پلاٹ  کی قیمتِ فروخت پر زکوۃ  لازم ہے، یعنی سائل اگر صاحبِ نصاب ہے تو دیگر اموالِ زکوۃ  (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت ) کی زکوۃ ادا کرتے وقت مذکورہ پلاٹ کی قیمتِ فروخت پر ڈھائی فیصد زکوۃ  لازم ہے، اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں  تھا تو  سال پورا ہونے پر  چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوۃ دینا ہوگا،اور اگر مذکورہ  پلاٹ  رہائش کی نیت سے خریدا گیا ہے (یعنی خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرکے نفع کمانا مقصود نہ ہو) تو  اس  پلاٹ پر زکوۃ   نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين." 

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:262، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209200701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں