بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ کی اقساط ادا نہ کرنے پر ضمان کا حکم


سوال

 میں نے ایک پلاٹ احسن ٹاؤن میں خریدا، اس کے ترقیاتی   کام (ڈیولپمنٹ )کے اخراجات سن 2018 میں تین لاکھ روپے تھے، جو پانچ قسطوں میں ادا کرنے تھے، میں نے وہ اپنے بھائی کو دے دئیے تھے اور انہوں نے  مجھے بتایا کہ وہ ادا کر دئیے گئے ہیں،اب جاکر جب میں نے معلوم کیا تو اس میں     سے تین اقساط ادا نہیں کی گئیں، جس کی وجہ  سے پلاٹ کی قیمت بتیس لاکھ کے بجائے بارہ لاکھ رہ گئی ہےاور تین اقساط کم ادا ہونے کی وجہ سے نئے ترقیاتی اخراجات کا 60 فی صد ادا کرنا پڑے گا جو کہ تقریباً نو لاکھ ہو سکتا ہے ،اس صورت میں اس نقصان کا خمیازہ کس کی ذمہ داری ہے؟،کیا نئے ترقیاتی اخراجات کی ساٹھ فی صد ادائیگی بھائی کی ذمہ داری ہےیا میری ذمہ داری ہے؟ جس صورت میں مجھے ان سے صرف 180,000 واپس لینے ہوں گے جو کہ نہ ادا کی جانے والی رقم ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو  تین لاکھ روپے کی رقم اپنے بھائی کو پلاٹ کے ڈیولپمنٹ چارجز  ادا کرنے کے لیے  دی تھی وہ اس کے پاس امانت تھی ،لیکن جب اس نے تمام اقساط ادا نہ کرکے 1,80,000  کی رقم اپنے پاس رکھ لی تواس نےاس امانت میں خیانت کی جوکہ  سخت گناہ ہے،سائل کے بھائی کے ذمہ صرف اتنی رقم دینا لازم ہے جتنی رقم سائل کے بھائی نے اپنے پاس رکھ لی تھی، البتہ پوری اقساط ادا نہ کرنےکی وجہ  سے سائل کا جو نقصان ہواہے ،اضافی چارجز لگےاس کا ضمان(تاوان) اس کے بھائی پر لازم نہیں  ہے، اس لیےکہ مذکورہ کوتاہی کا مالی ضمان لینا تعزیر بالمال کے زمرے میں آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے،تاہم اس کے لیے لازم ہے کہ سائل سے اپنی اس خیانت پر معافی مانگے اور آئندہ ایسی حرکت سے اجتناب کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقوله:( لا بأخذ مال في المذهب) ... إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي".

(باب التعزير،مطلب في التعزير بأخذ المال،61/4،ط: سعيد)

شرح المجلة میں ہے:

"الوديعة إذا لزم ضمانها ،فإن كانت من المثليات تضمن بمثلها،وإن كانت من القيميات تضمن بقيمتهايوم لزوم الضمان ...يعني يوم وقع تعدي المودع على الوديعة؛لأنه بذالك صار غاصبا،ففي المنح وغيره: المودع  بالتعدي على الوديعه  غاصب".

(شرح  المجلۃلخالد الأتاسي،296/2،ط:مکتبہ حقانیہ پشاور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں