بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکات کا حکم


سوال

 میں نے دو عدد پلاٹ بک کراۓ ہیں ،اور قسطیں ادا کر رہا ہوں،جب کہ  قبضہ نہیں ملا ہے ،بلکہ نمبربھی نہیں ملا ہے، اب مجھ  پر اِن کی  زکات  ہے کہ نہیں ؟اور زکات  قیمتِ خرید کے اعتبار  سے  ہوگی یا قیمتِ فروخت کے اعتبار سے؟ جب کہ معلوم نہیں ہے کہ کس قیمت پر بکیں گے؟

جواب

صورت ِمسئولہ میں  جب مذکورہ  بُک کراۓ گئے پلاٹوں کا نمبر بھی الاٹ نہیں ہیں تو اِن پلاٹوں پر زکاۃ نہیں ،بلکہ جتنی رقم سائل نے جمع کرئی ہے اِس پر زکوۃ ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وكذا ‌الوديعة عند غير معارفه (قوله عند غير معارفه) أي عند الأجانب، فلو عند معارفه تجب الزكاة لتفريطه بالنسيان في غير محله بحر."

(كتاب الزكاة،266/2،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه لفقد شرطه وذلك مثل مال الضمار كالآبق والمفقود والمغصوب إذا لم يكن عليه بينة والمال الساقط في البحر والمدفون في المفازة إذا نسي مكانه والذي أخذه السلطان مصادرة الوديعة إذا نسي المودع، وليس هو من معارفه والدين المجحود إذا لم يكن عليه بينة ثم صارت له بعد سنين بأن أقر عند الناس، وإن كان المودع من معارفه تجب عليه زكاة الماضي إذا تذكر."

(كتاب الزكاة،شروط وجوبها،256/1،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508102287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں