بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیار سے آدھا نام لے کر پکارنا


سوال

کسی انسان کا پیار کی وجہ سے آدھا نام لینا کیسا ہے؟ جیسے ’’علی محمد‘‘  کو علو کہنا۔

جواب

نام اگر پیار سے گھٹا، بڑھا لیے جائیں  اور اس کا مقصد  محبت کا اظہار  ہو، اور جس کو پکارا جائے وہ بھی اس کو محبت ہی تصور کرتا ہو، اور اس سے اس کی توہین مقصود نہ ہو  اور اس سے معنی میں فساد نہ آئے  تو  اس کی گنجائش ہے، تاہم اگر کسی کے نام کا جز اللہ یا اس کے رسول کا نام ہو تو اسے اس طرح بگاڑنے میں مقدس ناموں کی بے احترامی کا شبہ ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ باقی محض کسی کو حقیر ثابت کرنے یا اس کی تذلیل کرنے  کے لیے اس کا نام بگاڑنا جائز نہیں ہے۔

نیز اس میں یہ بھی رعایت رکھنی چاہیے کہ یہ تخفیف والا نام اس قدر غالب نہ ہوجائے کہ لوگوں کو اصل نام بھی معلوم نہ ہوسکے، اس لیے مستقل ہی اس طرح نام سے پکارنا مناسب نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں ’’علی‘‘ نام کو پیار سے کبھی ’’علو‘‘  کہہ لینے کی گنجائش تو ہے، اس لیے کہ ’’علی‘‘  بندوں کے ناموں کے لیے بھی مستعمل ہے، لیکن چوں کہ  یہ اللہ کا صفاتی نام بھی ہے،  اس لیے اس کو  اس طرح پکارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

المجموع شرح المهذب (8/ 442):
"(الثامنة): اتفقوا على جواز ترخيم الاسم المنتقص إذا لم يتأذّ بذلك صاحبه ثبت أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم (رخّم أسماء جماعة من الصحابة، فقال لأبي هريرة: يا أباهر، ولعائشة: يا عائش، ولأنجشة: يانجش
 ". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں