بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیٹ بھر کر کھانا کھانے کاحکم


سوال

پیٹ بھر کر کھانا کھانا کیسا ہے؟میں دن میں تین دفعہ کھانا کھاتا ہوں،ناشتہ،دوپہر،اور رات کا کھانا ،اور پیٹ بھر کر جب تک بھوک ختم نہیں ہوتی کھاتارہتا ہوں ،کیا ایسا کرنا گناہ ہے؟یا کم کھانا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ پیٹ بھر کر کھانا  کھانا  نہ مطلقا گنا ہ ہے اور نہ ہی مطلقاً ثواب ہے،اگر پیٹ بھر کر کھانے سے اچھی نیت ہو مثال کے طور پر عبات کرنے اور روزہ رکھنے کی غرض سےبدن میں قوت حاصل کرنے کے لیے  پیٹ بھر کر کھایا جاۓ تو باعثِ ثواب ہے اسی طرح اگر کسی  مہمان کا ساتھ دینے کے لیے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا جاۓتواس میں کوئی حرج نہیں ،اسی طرح اگر پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے مقصد کسی ناجائز کام کے لیے جسمانی توانائی کا حصول ہو تو ایسی صورت میں پیٹ بھر کر کھانے پر آخرت میں محاسبہ ہوسکتا ہے ۔

میانہ روی سے    کھانا کھانا اور مکمل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے، اس کے  لیے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے  چاہییں، ایک تہائی کھانے  کے لیے، ایک تہائی پانی  کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے  کے لیے،  جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: "کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا،  ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں،  اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر دے۔

جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے؛ کیوں کہ زیادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے، جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے، اور "تہائی " سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پیٹ بھر لے اس کا تیسرا حصہ ۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل، وما يتصل به) أما الأكل فعلى مراتب: فرض، وهو ما يندفع به الهلاك، فإن ترك الأكل والشرب حتى هلك فقد عصى. ومأجور عليه، وهو ما زاد عليه ليتمكن من الصلاة قائما ويسهل عليه الصوم. ومباح، وهو ما زاد على ذلك إلى الشبع لتزداد قوة البدن، ولا أجر فيه، ولا وزر ويحاسب عليه حسابا يسيرا إن كان من حل. وحرام، وهو الأكل فوق الشبع إلا إذا قصد به التقوي على صوم الغد أو لئلا يستحيي الضيف فلا بأس بأكله فوق الشبع....وإن أكل الرجل مقدار حاجته أو أكثر لمصلحة بدنه لا بأس به، كذا في الحاوي للفتاوى."

(کتاب الکراھیة،الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل وما يتصل به،ج:5،ص:335،ط:دار الفکر)

سنن ترمذمیں ہے:

"حدثنا سويد بن نصر قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك قال: أخبرنا إسماعيل بن عياش قال: حدثني أبو سلمة الحمصي، وحبيب بن صالح، عن يحيى بن جابر الطائي، عن مقدام بن معدي كرب، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما ملأ آدمي وعاء شرا من بطن. بحسب ابن آدم أكلات يقمن صلبه، فإن كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه» حدثنا الحسن بن عرفة قال: حدثنا إسماعيل بن عياش، نحوه، وقال المقدام بن معدي كرب: عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر فيه سمعت النبي صلى الله عليه وسلم: «هذا حديث حسن صحيح."

(ابواب الزھد،باب ما جاء في كراهية كثرة الأكل،ج:4،ص:590،ط:مصطفى البابي الحلبي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں