بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پشاور کے وہ شہری جو دوسرے شہر میں مقیم ہوں وہ رؤیت ہلال رمضان و عید میں کس کی پیروی کریں گے؟


سوال

پشاور اور وزیرستان وغیرہ میں عید الفطر عموماً ملک کے دیگر شہروں سے پہلے ہوتی ہے،معلوم یہ کرنا ہے کہ پشاور و وزیرستان کے وہ لوگ جو روزگار یا کسی اور غرض سے کسی ایسے شہر میں مقیم ہوں جہاں عید الفطر نہ ہو تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھیں گے یا عیدکریں گے؟ 

جواب

پشاور اور وزیرستان کے وہ لوگ جو کسی ایسے شہر میں مقیم ہوں جہاں عید کا اعلان نہیں ہوا تو ان پر اس شہر  والوں کی موافقت ضروری ہوگی یعنی ان پر روزہ رکھنا لازم ہوگا، اپنے آبائی شہر میں عید ہونے کی وجہ سے روزہ چھوڑنا اور عید کرنا جائز نہیں ہوگا۔

نیز مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، غیرسرکاری کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیےکہ ان کو ولایتِ عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے، لہذا مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کی ہی اتباع کرنی چاہیے۔

نیل الاوطا ر میں ہے:

"وثانيها: أنه لا يلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصیام، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، 4/ 230، ط: دارالحدیث، مصر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً له."

(کتاب الصوم، الفصل الثاني فیما یتعلق برؤیة الهلال، 2/ 356، ط: ادارۃ القرآن)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔‘‘

(مسئلہ رؤیت ہلال، 3 / 484،  ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں