کیا پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک دینا جائز ہے؟جن کے بارے میں آپ کو پتہ ہے کہ یہ پیشہ ور ہیں،پیشہ ور بھکاریوں کو جو لوگ بھیک دیتے ہیں،کیا اسلام ان کو منع کرتا ہےاور ان کے خلاف اسلام میں کوئی سزا مقرر ہے؟
واضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ،لہذاجن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں اور بلاضرورت بھیک مانگ رہا ہے تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے،ان کو نہیں دینا چاہیے، البتہ اگر کسی نے ان کو ضرورت مند سمجھ کر بھیک دے دی تو دینے والا گناہ گار نہ ہوگا،نیز جو لوگ ان کے ساتھ تعاون کر تے ہیں اسلام میں ان کے لیے کوئی سزا نہیں مقرر کی گئی،البتہ بلا وجہ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ان کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ترمذی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا تحل الصدقة لغني، ولا لذي مرة سوي."
(کتاب الزکوٰۃ،باب من لا تحل لہ الصدقۃ،ج:2،ص:35،الرقم:652،ط:دارالغرب الإسلامی)
فتاوی شامی میں ہے:
"وسيأتي في باب المصرف أنه لا يحل أن يسأل شيئا من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم."
(کتاب الصلاۃ، باب العیدین،ج:2،ص:164، ط:سعید)
بذل المجہود فی حل سنن ابی داود میں ہے:
"حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، حدثنا مصعب بن محمد بن شرحبيل، حدثنى يعلى بن أبى يحيى، عن فاطمة بنت حسين، عن حسين بن على قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «للسائل حق وإن جاء على فرس».۔۔(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للسائل حق وإن جاء على فرس) يعني إذا سأل سائل أحدا ينبغي له أن يحسن الظن به وإن جاء على فرس، فإنه يمكن أن يحتاج إلى ركوب الفرس، ومع ذلك تلجئه الحاجة إلى السؤال، ويكون له عائلة، أو يكون تحمل حمالة فلا يسيء الظن به، وهذا لعله باعتبار القرون الأولى، وأما في هذا الزمان فنشاهد كثيرا من الناس اتخذوا السؤال حرفة لهم، ولهم فضول أموال؛ فحينئذ يحرم لهم السؤال، ويحرم على الناس إعطاؤهم."
(كتاب الزكاة، باب حق السائل،ج:6،ص:523،رقم:1666،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101057
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن