بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پرنٹ والے کپڑے زینت میں داخل ہیں؟


سوال

 کیا کپڑے پر ہوا پرنٹ بھی زینت میں آتا ہے؟ اگر ہاں تو کیا سارے پرنٹ زینت ہوتے ہیں کپڑے کی؟ یا کیا کوئی خاص قسم کے پرنٹ زینت میں آتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ خواتین کی زینت سے مراد وہ اشیاء ہیں جنہیں وہ عام طور زیب و زینت، زیبائش و آرائش کی غرض سے استعمال کرتی ہیں، مثلاً زیورات،  سرمہ، ریشم کے کپڑے وغیرہ؛  لہذا جس کپڑے کو خواتین زیب وزینت کی غرض سے پہنتی ہیں اور اور انہیں عرف میں زیب وزینت کی اشیاءمیں شمار کیا جاتا ہےتو وہ زینت میں داخل ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ عورت کو چوں کہ عدت کے دوران زیب و زینت اختیار کرنا منع ہے تو  کیا پرنٹ والے کپڑے زینت میں داخل ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: عورتوں کے   کپڑوں پر مطلقًا پرنٹ کے ہونے سے وہ لباس زینت کا لباس شمار نہیں ہوگا، اس لیے کہ اب عام لباس بھی پرنٹ سے خالی نہیں ہوتے، بلکہ جس لباس کو عرف میں زینت کا لباس  شمار کیا جاتا ہو، اور خواتین ان زیب وزینت کی غرض سے پہنتی ہوں  جیسے چمک دمک والے کپڑے، مختلف بیل بوٹے اور کڑہائی والے کپڑے وغیرہ  یا ان لباسوں کی وضع ہی زیب وزینت کے لیے ہو مثلاً ریشم کے ملبوسات، یا بہت زیادہ شوخ و بڑھکیلے رنگ کا لباس ہو تو یہ زینت میں شمار ہوگا، اور عدت کے دوران عورت کو ایسے لباس کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی۔

اور گھر کے معمول کے کپڑے اگرچہ پرنٹ والے ہوں، ان کو عورت عدت کے دوران استعمال کرسکتی ہے۔

تاہم یہ ملحوظ رہے کہ کپڑوں پر اگر جان دار چیز کا پرنٹ ہو تو اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"وجب في الموت إظهاراً للتأسف علی فوات نعمة النکاح؛ فوجب علی المبتوتة إلحاقاً لها بالمتوفی عنها زوجها بالأولی؛ لأن الموت أقطع من الإبانة ... دخل في ترك الزینة الامتشاط بمشط أسنانه ضیقة لا الواسعة، کما في المبسوط، وشمل لبس الحریر بجمیع أنواعه وألوانه ولو أسود، وجمیع أنواع الحلي من ذهب وفضة وجواهر، زاد في التاتارخانیة القصب".

(۴/۲۵۳، کتاب الطلاق ، فصل في الإحداد)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 417):

مطلب في الفرق بين قصد الجمال وقصد الزينة (قوله: إذا لم يقصد الزينة) اعلم أنه لا تلازم بين قصد الجمال وقصد الزينة فالقصد الأول لدفع الشين وإقامة ما به الوقار وإظهار النعمة شكرا لا فخرا، وهو أثر أدب النفس وشهامتها، والثاني أثر ضعفها، وقالوا بالخضاب وردت السنة ولم يكن لقصد الزينة ثم بعد ذلك إن حصلت زينة فقد حصلت في ضمن قصد مطلوب فلا يضره إذا لم يكن ملتفتا إليه فتح، ولهذا قال في الولوالجية لبس الثياب الجميلة مباح إذا كان لا يتكبر؛ لأن التكبر حرام، وتفسيره أن يكون معها كما كان قبلها. اهـ. بحر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 531):

(بترك الزينة) بحلي أو حرير، أو امتشاط بضيق الأسنان (والطيب) وإن لم يكن لها كسب إلا فيه (والدهن) ولو بلا طيب كزيت خالص (والكحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر) ومصبوغ بمغرة، أو ورس (إلا بعذر)

(قوله: بترك الزينة) متعلق بتحد والباء للآلة المعنوية لأن الترك عدمي أو للتصوير، أو للسببية، أو للملابسة لأن في " تحد " معنى تتأسف، أو لأن الحد في الأصل المنع، فلايرد أن فيه ملابسة الشيء لنفسه.

(قوله: بحلي) أي بجميع أنواعه من فضة وذهب وجواهر بحر. قال القهستاني: والزينة ما تتزين به المرأة من حلي أو كحل كما في الكشاف، فقد استدرك ما بعده، ويؤيده ما في قاضي خان: المعتدة تجتنب عن كل زينة نحو الخضاب ولبس المطيب. اهـ. وأجاب في النهر بأن ما بعده تفصيل لذلك الإجمال.

قلت: فيه أن هذا التفصيل غير موف بالمقصود فالأظهر أنه أراد بالزينة نوعا منها، وهو ما ذكره الشارح من الحلي والحرير لأنه قوامها، وغيره خفي بالنسبة إليه فعطفه عليها. (قوله: أو حرير) أي بجميع أنواعه وألوانه ولو أسود بحر، وقوله: ولو أسود أشار به إلى خلاف مالك حيث قال يباح لها الحرير الأسود كما في الفتح، وبه علم أنه لا يصح استثناء الأسود كما وقع في الدرر المنتقى عن البهنسي فإنه ليس مذهبنا فافهم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں