بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیر اور جمعرات کے روزے کیسے رکھا جائے اگر کوئی شخص ظھر تک رکھے تو کیا حکم ہے


سوال

پیر اور جمعرات کے روزے کیسے رکھا جائے اگر کوئی شخص ظھر تک روزے رکھے تو کیا حکم ہے؟

جواب

  پیر اور جمعرات کا روزہ سنت سے ثابت ہے، اور حکم کے اعتبار سے مستحب ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیر اور جمعرات کے روزے رکھتے تھے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن انسانوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ روزہ کی حالت میں میرے اعمال پیش کیے جائیں،اور نیت کا طریقہ یہ ہے کہ   (الف): میں پیرکے دن کا نفلی روزہ رکھتا ہوں(ب)میں روزہ رکھتا ہوں (ج)دونوں صورتوں میں روزہ کی نیت درست ہے، نیت کرنے کا وقت غروب آفتاب کے بعد سے اگلے دن کی نصف النہار شرعی تک کرلے    درست ہے ، نصف النہار شرعی کے بعد نیت درست نہیں ، البتہ صبح صادق  سے نیت کرنا بہتر ہے، اور اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے بجائے ظہر تک رکھ کر افطار کرلے تو ایسے جزوی روزے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے ، اس طرح غیر شرعی روزہ  رکھنے کا ثواب نہیں ملے گا ، بلکہ یہ شریعت میں ایسی بات کا اضافہ  ہوگا جس کی کوئی اصل نہیں، اور نیکی کے بجائی گناہ کا  باعث ہوگا۔

سنن الترمذي میں ہے:

'‌'عن ‌أبي ‌هريرة، ‌أن ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌قال: «‌تعرض ‌الأعمال ‌يوم ‌الاثنين ‌والخميس، ‌فأحب ‌أن ‌يعرض ‌عملي ‌وأنا ‌صائم ،حديث أبي هريرة في هذا الباب حديث حسن غريب.''

(‌‌باب ما جاء في صوم يوم الاثنين والخميس،ج:3،ص:113،رقم الحديث:747،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

سنن أبي داود  میں ہے:

''عن مولى قدامة بن مظعونعن مولى أسامة بن زيد: أنه انطلق مع أسامة إلى وادي القرى في طلب مال له، فكان يصوم يوم الاثنين ويوم الخميس، فقال له مولاه: لم تصوم يوم الاثنين ويوم الخميس وأنت شيخ كبير؟ فقال: إن نبي الله -صلى الله عليه وسلم- كان يصوم يوم الاثنين ويوم الخميس، وسئل عن ذلك، فقال: "إن أعمال الناس تعرض يوم الاثنين ويوم الخميس."

( كِتَاب  الصَّوْمُ ، بَابٌ  فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ،ج:4،ص:100، رقم الحديث:2436،ط:دار الرسالة العالمية)

فتویٰ شامی میں ہے:

''(فيصح) أداء (صوم رمضان والنذر المعين والنفل بنية من الليل) فلا تصح قبل الغروب ولا عنده (إلى الضحوة الكبرى لا) بعدها، ولا (عندها) ‌اعتبارا،‌لاكثر ‌اليوم.''

‌‌(كتاب الصوم،ج:2،ص:377،ط:سعید)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں