بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پینشن، جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت


سوال

1: گزشتہ سال رضائے الہی سے میری بیوی کا انتقال ہو گیا ہے،میری بیوی کے جہیز میں جو بھی سامان تھا اس کا شرعی طور پر کون حق دار ہوگا؟ جب کہ جہیز کا سارا سامان میرےسسرال والے لے گئے ہیں؟

2: میری بیوی گورنمنٹ ملازم تھیں، گورنمنٹ کی طرف ان کے جو  واجبات ہیں مثلاً  جی پی فنڈ ،گریجویٹی، پینشن وغیرہ وہ کس کو ملنے  چاہییں؟ میری کوئی اولاد بھی نہیں ہے ،  ان واجبات کا اصل وارث کون ہے؟

3: - میری بیوی کے ماں باپ کا بھی انتقال  مرحومہ سے پہلےہو گیا ہےاور میری کوئی اولاد نہیں ،اور اب میری اہلیہ کی فیملی میں یعنی میرےسسرال میں میرے دو سالے اور دو سالیاں حیات ہیں ان کا ان واجبات میں شرعی طور پر کوئی حق بنتا ہے یا نہیں؟ 

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں نکاح  کے موقع پر  سائل کی مرحومہ بیوی کو میکہ والوں کی طرف سے جو جہیز کا سامان(فرنیچر )  ملا ہے ، ان کی مالکہ  سائل کی مرحومہ بیوی  تھی،اور انتقال کے بعد مرحومہ کے شوہر کو اس میں سے آدھا اور  بقیہ آدھا مرحومہ  کے بہن  بھائیوں میں تقسیم ہو گا ،مرحومہ کے گھر والوں کا اس جہیز کے سامان کو واپس لے جانا درست نہیں ہے ۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کی مرحومہ بیوی  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ  کے  حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد،اوراگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے  ایک تہائی میں نافذ  کرنے کے بعد، مرحوم  کے کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ   کے 12 حصے کر کے ،مرحومہ کے شوہر کو 6 حصے ،جب کہ مرحومہ کے ہر ایک بھائی کو 2 حصے ،اور  ہر ایک بہن کو 1حصہ ملے گا۔

صورتِ  تقسیم یہ ہو گی :

میت(سائل کی مرحومہ  بیوی )  مسئلہ :2 /12

شوہر بھائی بھائیبہن بہن
11
62211

یعنی 100 روپے میں سے 50 روپے مرحومہ کے شوہر کو ،جب کہ 16.66 ہر ایک بھائی کو ،اور 8.33 ہر ایک بہن کو ملیں گے۔

3۔2۔واضح رہے کہ  حکومتی ملازم  جب ریٹائر ہوتا ہے  تو اس کو گریجویٹی اور پینشن کے نام سے کچھ رقم بطورِ مراعات ملتی ہے ،یہ رقم تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتی،بلکہ  ادارہ کی طرف سے ملازم کے لئے  انعام و عطیہ ہوتی ہے، مذکورہ رقم  ادارہ جس شخص کو دے وہی اس کا حق دار ہوتا ہے ،یہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی مرحومہ بیوی نے اپنی  زندگی میں پنشن  و گریجویٹی کی جتنی رقم وصول کی ہے، مرحومہ اس کی مالکہ ہے، اور مرحومہ کے انتقال کے بعد یہ رقم اس کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء(جو کہ مرحومہ کا شوہر،دو بہنیں اور دو بھائی ہیں) میں شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگی ،شوہر کو (1/2)کے حساب سے حصہ ملے گا ،اور مرحومہ کے بھائی کو مرحومہ کی بہن سے دگنا ملے گا، اور پنشن  و گریجویٹی فنڈ کی وہ رقم جو اب تک مرحومہ کو  نہیں ملی ہے، مرحومہ کے انتقال کے بعد شوہر یا بہن بھائی میں سے جس کے نام  گورنمنٹ یہ رقم جاری کرے وہی اس کا مالک ہوگا، یہ مرحومہ کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا۔

البتہ  جی پی فنڈ  میں ملنے والی رقم(اگر ادارے والے ملازم کے اختیار سے  کٹوتی کرتے ہوں  تو اصل رقم ، ورنہ اصل اور اضافہ سمیت یعنی  اگر کٹوتی جبری طور پر کرتے ہوں)   مرحومہ کا ترکہ شمار ہو گی ،اس میں تمام  شرعی ورثاء کا حق ہوگا،اور   مرحومہ کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی  ،کسی ایک وارث کا اس رقم  کو اپنے قبضے میں لے کر دوسروں کو اس سے محروم کرنا شرعا جائز نہیں ،ایسا کرنے والا دیگر ورثاء کی حق تلفی کی وجہ سے گنا ہ گا ر ہوگا ۔

وفی الفقه الإسلامي وأدلته:

‌‌  "الإرث لغةً: بقاء شخص بعد موت آخر بحيث يأخذ الباقي ما يخلفه الميت. و فقهاً: ما خلفه الميت من الأموال و الحقوق التي يستحقها بموته الوارث الشرعي."

(الفصل الاول، تعریف علم المیراث/10/ 7697/ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا۔"


(کتاب النکاح،باب المہر،ج:3،ص:153،ط:سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم)."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب الأول في بیان شركة الملك ج:3،ص:55،ط: المكتبة الطارق)

وفیہ ایضاً:

"فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المادۃ، 57،ج:1،ص:57،ط:المكتبة الطارق)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". 

(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام

(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر". (رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے :

"   چوں کہ میراث اموال مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدون قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض  ج 4 ص 342 ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’جبری  پراویڈنٹ فنڈ  پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت (تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال  میں لانا جائز ہے ،البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے  اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے‘‘۔ 

(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ: 3/258، ط: دارالعلوم کراچی)

کفایت المفتی میں ہے :

"سوال  :شادی کے موقع پر لڑکی کو دئیے گے جہیز کا کیا حکم ہے ؟

(جواب )لڑکی کو شادی کے موقع پر جو مال واسباب بطورِ جہیز دیا جاتا ہے وہ سب لڑکی کی ملک ہے ،انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں شامل ہو گا۔"

(کتاب الفرائض ،ج :8 ،ص :305 ،ط :دارالاشاعت )

فقط اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100724

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں