بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پینشن کا حکم


سوال

میرے مرحوم شوہر نے تین شادیاں کی تھیں،پہلی بیوی   شوہر کی  زندگی میں  ہی انتقا ل کر گئی تھی ،ان کے ورثاء میں : تین بیٹےاور دو بیٹیاں  ہیں، جن  میں سے ایک بیٹی کا انتقال والد کی زندگی میں  ہوچکا ہے۔

دوسری بیوی سے دو بیٹیا ں  ہیں اور سب حیات ہیں۔بیوی کا انتقال شوہر کی زندگی میں ہوچکاہے۔

تیسری بیوی میں ہوں  ،مجھ سے  دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں،ان میں ایک بیٹی غیر شادی شدہ ہے،میرے شوہر نے تقریباً 27، 28 سال قبل ایک لاوارث بچی کی پرورش کی،جو کہ غیر شادی شدہ ہے، اور اس نےمیرے اور اپنا نام بطورِ والدین نامزد کیا ، دوسری بیوی کانکاح نامہ اور کوئی دستاویز موجود نہیں ہیں اورنہ ہی میرے مرحوم شوہر کی  F.R.C میں ان کا نام ہے ان سے پیدا ہونے والی دونوں بیٹیوں کے برتھ سرٹیفیکٹ میں میرا نام والدہ کی حیثیت سے ہے اور F.R.C میں بھی وہ میری ہی بیٹیاں تحریر ہیں ۔

اب پوچھنا یہ ہے مجھے اپنے شوہر کی پنشن کے حصول میں ان تین لڑکیوں(دو دوسری بیوی سے پیداہونے والی اور ایک لے پالک) کی وجہ سے رکاوٹ ہے، مہربانی کرکےان تینوں لڑکیوں کے متعلق   شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ،کہ ان تینوں کا پنشن میں کوئی حق ہے کہ نہیں؟

شوہر کی جائیداد تقسیم کا طریقہ کار کیاہے؟

میرے مرنے کے بعد میری  جائیداد میں ان تینوں بچیوں  کاحصہ ہوگا کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ملازمین یا ان کے  انتقال بعد ان کے لواحقین کو  ملنے والی پینشن کی رقم  متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، اور ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ  میں   مرحوم کے انتقال کے بعد  ملنے والی پنشن اگرسائلہ   کے نام پر آرہی ہے، تو یہ سائلہ  کی ملکیت ہے،یہ مرحوم کی وراثت میں تقسیم نہ ہو گی،اس میں کسی کاحصہ نہیں ہوگا۔

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے‘‘۔

( کتاب الفرائض،4/343، ط: دارالعلوم)

 مرحومکی میراث اس کے ورثاء میں تقسیم کرنے  کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعداگر مرحوم کے ذمہ کسی کا  قرض ہو اس  کی ادائیگی کے بعد اگرمرحوم نے کوئی جائزوصیت کی ہو تو  باقی مال کے ایک تہائی مال میں اس کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو 136حصے بناکر مرحوم کی زندہ بیوہ(سائلہ )کو 17حصے ،ہر ایک بیٹے کو14حصے اور ہر ایک  زندہ بیٹی کو7حصے ملیں گے۔لے پالک بچی کا مرحوم کی جائیداد میں شرعا کوئی حق نہیں ہے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:136/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
1714141414147777777

یعنی 100روپے میں سے بیوہ(سائلہ )کو12.50روپے،ہر ایک بیٹے کو10.294روپے اور ہرایک زندہ بیٹی کو5.147روپے ملیں گے۔

سائلہ کے انتقال کے بعد ان کی میراث ان کی  حقیقی اولاد میں تقسیم ہوگی ،دوسری بیوی کی بیٹیوں اور لے پالک بیٹی کا اس میں حصہ نہیں ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں