بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پچھلے سال کی زکات اگلے سال تک تقسیم کرنا


سوال

پچھلے ہجری سال  (1443) کی زکوٰۃ بقایا موجود ہو تو اُسے اِس سال بانٹنا ضروری ہے؟ کیا  اگلے سال بھی پچھلے سال کی زکوٰۃ بانٹ سکتے ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ زکات واجب ہونے کے بعد اس کی  ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ فوراً  ادا کر دینی چاہیے، اس لیے کہ بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر پیش آجائے اور  اُس کی وجہ سے ادائیگی  میں کچھ  تاخیر  ہوجائےتو گناہ نہیں ہوگا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی نے گزشتہ سال کی زکات پوری  ادا نہیں کی اور اس کے ذمہ کچھ زکات باقی رہ گئی اور اگلے سال کی زکات نکالنے کا وقت آ گیا، تو اسے  گزرے ہوئے سال کی بقیہ زکات اور اس نئے  سال کی  زکات ادا کرنی ہوگی،بلا عذر اتنی تاخیرکرے کہ اگلے سال آجائے شرعا مکروہ ہے،اس لیے اگر عذر نہ ہو تو ایک سال کی زکات پوری ادا کرنے میں اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے کہ اگلا سال شروع ہو جائے۔  نيز اگر زکات بانٹنے سے سائل کی مراد کوئی خاص صورت ہے، تو اس کے بارے میں تفصیل لکھ کر سوال کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وافتراضها عمري) أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر.

قال ابن عابدين:(قوله: فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل."

(الدر مع الرد، ج2، ص271، ط: سعيد)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144408102499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں