بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پی ایف فنڈ کی رقم کو انویسٹ کرکے ملنے والے نفع کا حکم


سوال

میں جس ادارے میں ملازمت کرتی ہوں، اس ادارے میں ہماری تنخواہ سے کچھ رقم پی ایف فنڈ کے لیے کٹوتی ہوتی ہے، اور یہ کٹوتی ملازمین کی رضامندی سے ہوتی ہے، پھر یہ رقم کاروبار مالکان کاروبار میں لگاتے ہیں اور نفع اور نقصان کے مطابق ہماری کٹوتی رقم میں ہر ماہ اضافہ ہوتا ہے۔

ہمارے ادارے نے گذشتہ سال معینہ مدت کے لیے یہ رقم ایک نجی بینک میں سرمایہ کاری کی نیت سے لگا دی تھی، جس پر نفع یا نقصان کے بجائے براہِ راست سود لگا ہے، ادارے کا کہنا ہے کہ یہ انجانے میں ہوا ہے، اس لیے جو سود کی رقم بنتی ہے وہ ہر ملازم اگر اپنے پی ایف اکاؤنٹ سے نکالنا چاہے تو نکال سکتا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ یہ رقم ہماری ملکیت تو ہے، لیکن یہ سود کی رقم ہے، اور وہ ایسا جو کہ ہماری اجازت کے بغیر ہمارے اکاؤنٹ میں ڈالی گئی ہے، ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ اس کا کیا کریں، کیوں کہ مستقبل میں نفع ہو یا نقصان وہ سود کی رقم شامل کر کے ہوگا، اور اگر ہم یہ پیسے نکال لیتے ہیں تو ہماری پرانی جمع پونجی باقی رہے گی جو سود سے پاک تھی۔

اب آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا اس رقم کو کسی بھی مستحق کی مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟ اور اگر کوئی خود خرچ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ ادارے والے ملازمین کی تنخواہ سے جو ماہانہ  کٹوتی کرتے ہیں،  تو چوں کہ یہ کٹوتی جبری نہیں ہوتی، بلکہ اختیاری ہو  تی ہےکہ ملازمین کی رضامندی سے ادارے والے کٹوتی کرتے ہیں، تو اس لیے اسی قدر لینا جائز ہےجتنی مقدار ملازمین کی تنخواہ سے کٹی ہے اس پر جس قدر اضافی رقم ملی، وہ تشبہ بالربوا ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس اضافی رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِ زکوۃ کو دینا ضروری ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها."

(كتاب الإجارة، ج: 7، ص: 300، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(کتاب الحظر والاباحة، فصل فی البیع، ج: 6، ص: 385، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"ويجب ‌عليه ‌تفريغ ‌ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء."

(كتاب الزكاة، شروط وجوب الزكاة، ج: 2، ص: 221، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث سبيله التصدق به، و لو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيًّا تصدق بمثله، و إن كان فقيرًا لايتصدق."

(کتاب الغصب، ج: 3، ص: 76، ط: قدیمي)

مفتی شفیع صاحبؒ اپنی کتاب  " پراویڈنٹ فنڈ" میں تحریر فرماتے ہیں:

پراویڈ نٹ فنڈ پر محکمہ کی طرف سے سود کہہ کر دی جاتی ہے اس کے سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ سود اور ربا ایک معاملہ ہے جو دو طرفہ بنیاد پر متعاقدین میں طے ہو کر وجود میں آتا ہے  پراویڈنٹ  فنڈ درحقیقت ملازم کی خدمات کے معاوضہ کا ایک حصہ ہے جو ابھی تک وصول نہیں کیا لہذا یہ محکمہ کے ذمہ ملازم کا دین ہے اور جب تک ملازم خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ اس پر قبضہ نہ کر لے وہ اس کا مال مملوک نہیں ہے ۔

لہذا جس وقت محکمہ اپنا یہ واجب الادادین ملازم کو ادا کرتا ہے اور اس میں کچھ رقم اپنی طرف سے مزید ملا کر دیتا ہے( یہ مزید رقم خواہ وہ ہو جو محکمہ ماہ بماہ ملازم کے حساب میں جمع کرتا ہے اور خواہ وہ ہو جو سالانہ سود کے نام سے اس کے حساب میں جمع کی جاتی ہے) تو یہ بھی محکمہ  کا اپنا یک طرفہ عمل ہے، کیونکہ اول تو ملازم نے اس زیادتی کے ملانے کا محکمہ کو حکم نہیں دیا تھا اور اگر حکم دیا بھی ہو تو اس کا یہ حکم شرعاً معتبر نہیں،  اس لیے کہ یہ حکم ایک ایسے مال سے متعلق ہے جو اس کا مملوک نہیں ہے ۔ بنا بریں محکمہ پراویڈنٹ فنڈ کی رقم پر جو زیادتی اپنی طرف سے دے رہا ہے اس پر شرعی اعتبار سے ربا کی تعریف صادق نہیں آتی،  خواہ محکمہ نے اس سود کا نام لے کر دیا ہو ۔

اگر کوئی ملازم اپنی پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کو درخواست دے کر کسی بیمہ کمپنی میں منتقل کرا دے یا یہ فنڈ ملازم کی رضامندی سے کسی مستقل کمیٹی کی تحویل میں دے دیا جائے جیسے کہ بعض غیر سرکاری کارخانوں میں ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے خود وصول کر کے بیمہ کمپنی یا کمیٹی کو دے،  اس لیے اس رقم پر جو سود لگایا جائے وہ شرعاً  سود ہی کے حکم میں ہے اور قطعاً  حرام ہے، کیونکہ اس صورت میں بیمہ کمپنی یا کمیٹی اس کی وکیل ہو جاتی ہے اور وکیل کا قبضہ شرعاً  مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے ۔

(مأخوذ: پراویڈنٹ فنڈ، مرتبہ: مفتی شفیع صاحبؒ، ص: 18۔24، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں