بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پھوپھی زاد سے نکاح کا حکم


سوال

میں اپنی پھپھو کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن میں ایک وسوسے کا شکار ہوں کہ میڈیکل سائنس کے مطابق کزن میریج سے بچے کم زور  پیدا ہوتے ہیں اور نہیں کرنی چاہیے اور جہاں میں شادی کر رہا ہوں ان پھپھو کا ایک بیٹا دل کے پٹھے کم زور  ہونے کی وجہ سے 14 سال کی عمر میں فوت ہو گیا تھا، لیکن الحمدللہ باقی سارے بچے ٹھیک ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہماری رشتہ داری مضبوط ہو  اور قائم رہے۔

شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں کہ میں کیا کروں؟ اور مزید یہ کہ میں نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب ’’اسلامی شادی‘‘ میں بھی یہ پڑھا کہ قریب میں شادی سے اولاد کم زور  پیدا ہوتی ہے،  میں اس وجہ سے پریشان تھا، آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے!

جواب

شریعتِ مطہرہ نے پھوپھی زاد  سے نکاح جائز قرار دیا ہے، قرآنِ مجید میں ہے: 

﴿ يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِـىٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِىْ هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِىُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْـهِـمْ فِـىٓ اَزْوَاجِهِـمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ لِكَيْلَا يَكُـوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾  [الأحزاب:۵۰]

ترجمہ: اے نبی (علیہ السلام) ہم نے آپ کے لیے آپ کی یہ بیبیاں جن کو آپ ان کے مہر دے چکے ہیں حلال کی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو تمہاری مملوکہ ہیں اور جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں آپ کو دلوا دی ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے مامؤں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے کو پیغمبر کو دے دے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں، یہ سب آپ کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں نہ اور مؤمنین کے لیے،  ہم کو وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیبیوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیے ہیں؛ تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی (واقع) نہ ہو اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (بیان القرآن)

لہذا مذکورہ رشتے میں شرعاً  کوئی قباحت نہیں،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں، نیز آپ ﷺ نے خود اپنی لختِ جگر سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا تھا، جو آپ ﷺ کے چچا زاد تھے، اور اس بابرکت شادی کے نتیجے میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہمامتولد ہوئے۔

البتہ بعض  حضرات نے قریبی رشتہ داروں میں نکاح سے اس لیے منع کیا ہے کہ بعض اوقات قریبی رشتہ دار کی طرف قلبی و شہوانی میلان نہایت کم ہوتا ہے، جو کہ مقاصدِ نکاح کے خلاف ہے،  حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے جو ذکر کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ رشتے داروں میں نکاح جائز ہے، البتہ اگر اس رشتے میں میلان نہ ہو یا تجربے سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو نہ کرنا بہتر ہے، یہ مقصد ہرگز نہیں کہ رشتے داروں میں نکاح ہمیشہ بیماریوں کا سبب یا شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ نیز  بعض لوگ جس روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ  نہایت کمزور ہے، بعض محدثین کے نزدیک ثابت ہی نہیں، لہذا  اس معاملہ میں شک و وسوسہ سے بچنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ استخارہ کرلیں، اگر اس نکاح میں بہتری ہوگی تو اللہ معاملہ بنا دے گا۔

إحياء علوم الدين للغزالی میں ہے:

"الثَّامِنَةُ أَنْ لَاتَكُونَ مِنَ الْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ فَإِنَّ ذَلِكَ يقلل الشهوة، قال صلى الله عليه وسلم: لاتنكحوا القرابة القريبة فإن الولد يخلق ضاوياً.

أي نحيفاً وذلك لتأثيره في تضعيف الشهوة؛ فإن الشهوة إنما تنبعث بقوة الإحساس بالنظر واللمس، وإنما يقوى الإحساس بالأمر الغريب الجديد، فأما المعهود الذي دام النظر إليه مدةً فإنه يضعف الحس عن تمام إدراكه والتأثر به ولاتنبعث به الشَّهْوَةَ، فَهَذِهِ هِيَ الْخِصَالُ الْمُرَغِّبَةُ فِي النِّسَاءِ".

( كتاب آداب النكاح، 2 / 41، ط: دار المعرفة)

خلاصة البدر المنير لابن الملقن میں ہے:

"1910- حديث: "لا تنكحوا القرابة القريبة، فإن الولد يخلق ضاويًا". "غريب، قال ابن الصلاح: لم أجد له أصلًا".

( كتاب النكاح، باب: ما جاء في استحباب النكاح للقادر على مؤنه، وصفة المنكوحة وأحكام النظر، 2 / 179، ط: مكتبة الرشد)

التمييز في تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز المشهور بـ التلخيص الحبير لابن حجر العسقلانیمیں ہے:

1952 - [4766]- حديث: "لا تَنكِحُوا الْقَرَابَةَ القريبةَ فإنّ الْولَد يُخلَق ضاويًّا". هذا الحديث تَبع في إيراده إمام الحرمين، هو والقاضي الحسين، وقال ابن الصلاح: لم أجد له أصلا معتمدًا انتهى. وقد وقع في "غريب الحديث" لابن قتيبة، قال: جاء في الحديث "اغْربوا لا تَضوُوا"، وفسره فقال: هو من الضّاويّ، وهو النحيف الجسم، يقال: أَضوت المرأة، إذا أتت بولد ضاوٍ، والمراد: أنكحوا في الغرباء، ولا تنكحوا في القريبة. وروى ابن يونس في "تاريخ الغرباء" في ترجمة الشافعي، عن شيخ له، عن المزني، عن الشافعي قال: أيّما أهل بيت لم تخرج نساؤهم إلى رجال غيرهم، كان في أولادهم حمق.

وروى إبراهيم الحربي في "غريب الحديث" عن عبد الله بن المؤمل، عن ابن أبي ملكية، قال: قال عمر لآل السّائب: قد أضوأتم، فأنكحوا في النوابغ.

قال الحربي: يعني تزوجوا الغرائب.

( كتاب النكاح، باب ما جاء في استحباب النكاح وصفة المخطوبة وغير ذلك، 5 / 2241 - 2242،  ط:  دار أضواء السلف)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں