بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر ایک طلاق دینے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے مجھے  فون پر ایک طلاق دی  ہے، ہمارا نکاح ہوا ہے رخصتی نہیں ہوئی،لیکن ہم  ملتے ہیں،لیکن ہمارے درمیان کبھی فزیکل ریلیشن (ازدواجی تعلق )  نہیں ہوا  ، ہمیں مواقع تو ملے لیکن   ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔

سوال یہ ہے کہ ہماری طلاق ہوئی ہے؟

اور نکاح کو برقرار رکھنے کا کیا  طریقہ ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے  شوہر کا بیوی کے  سامنے موجود ہونا یا طلاق کے الفاظ  کا سننا  ضروری  نہیں ہے ،نیز نکاح کے بعد  رخصتی سے   پہلے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا مذکورہ  صورت میں  موبائل پرطلاق دینے سے طلاق واقع ہوچکی ہے۔

آپ نے سوال میں یہ واضح نہیں کیا کہ آپ کے  شوہر نے طلاق دیتے ہوئے  کون سے الفاظ استعمال کئے ہیں ؟

لیکن اصولی جواب یہ ہے  اگر نکاح کے بعد  رخصتی سے پہلے،  لیکن   خلوتِ صحیحہ ( یعنی ازدواجی تعلق سے کسی مانعِ حسی ، شرعی اور طبعی کے بغیر تنہائی میں ملاقات)  کے بعد  جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ "  ہمیں  مواقع تو ملے لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا " سے واضح   ہے کہ خلوتِ صحیحہ   ( یعنی ازدواجی تعلق سے کسی مانعِ حسی ، شرعی اور طبعی کے بغیر تنہائی میں ملاقات)  ہوچکی ہے، لہذا اس صورت میں  اگر  ايك طلاق دی  ہے  تو ایک طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہے، اس طلاق کے بعد عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں ( اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)  گزرنے سے پہلے تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر شوہر عدت کے اندر رجوع کرلیتا ہے تو آپ کا نکاح برقرار رہے گا (رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، لیکن رجوعِ فعلی کرنے کو فقہاء نے مکروہ قرار  دیا ہے) دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا ہے تو  نکاح ٹوٹ جائے گا ،  اس صورت میں آپ کو مزید عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہوگی،  بلکہ عدمِ رجوع کی صورت میں آپ اس ایک عدت کے ختم ہوتے ہی کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں گی ، پھر اگر آپ دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ‌ثم ‌المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة."

  (‌‌كتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج:3، ص:246، ط:سعيد)

فتاوی شامی   میں ہے :

''ويقع ‌طلاق ‌كل ‌زوج ‌بالغ عاقل ولو عبدا أو مكرها  فإن طلاقه صحيح."

(کتاب الطلاق، رکن الطلاق، ج:3، ص:235، ط:سعید)

فتاوى  ہندیہ  میں ہے :

"والخلوة ‌الصحيحة ‌أن ‌يجتمعا ‌في ‌مكان ليس هناك مانع يمنعه من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب السابع، الفصل الثاني، ج:1، ص:304، ط:ماجدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء (بلا ‌مانع ‌حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل ذكره ابن الكمال، وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل."

(‌‌‌‌كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في حط المهر والإبراء منه، ج:3، ص:114، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و هو كأنت طالق و مطلقة و طلقتك و تقع واحدة رجعية و إن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئًا، كذا في الكنز."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:354، ط:مکتبة رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا ‌طلق ‌الرجل ‌امرأته ‌تطليقة ‌رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:470، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس."

" (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح."

(‌‌کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:397، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وينكح ‌مبانته ‌بما ‌دون ‌الثلاث ‌في ‌العدة ‌وبعدها ‌بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(‌‌كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب في العقد على المبانة، ج:3، ص:409، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408101865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں