بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا لڑکا دوسرے ملک میں ہو اور لڑکی دوسرے ملک میں تو فون پر نکاح جائز ہوگا؟

جواب

نکاح منعقد ہونے کے  لیے شرعًا یہ ضروری ہے کہ مجلسِ نکاح میں ایجاب و قبول کرنے والے، دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی  میں اس طور پر ایجاب و قبول کریں  کہ یہی دو گواہان اس  ایجاب و قبول کو سن لیں؛ چوں کہ ٹیلی فون پر مجلس ایک نہیں ہو تی ہے؛ اس لیے فون پر نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

جواز کی صورت یہ ہے کہ  جس مقام پر نکاح ہو رہا ہے اور گواہ بھی اس مجلس میں موجود ہوں، کوئی ایک فریق (مثلًا لڑکی) اس مجلس میں موجود کسی شخص کو فون پر نکاح کا وکیل مقرر کردے، اور وہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول سرانجام دے  اور دوسرا فریق (مثلًا: لڑکا) خود مجلس میں  قبول کرلے، تو اس صورت میں  نکاح منعقد ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 14):

"و من شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

و في الرد:

"(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد."

الفتاوى الهندية (1/ 269):

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231):

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21):

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين."

الفتاوى الهندية (1/ 267):

"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں