بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر نکاح کا حکم


سوال

 جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا فتوی ہے ، کہ مجلس نکاح میں ایجاب و قبول ٹیلیفون کے ذریعے ہو اور  نکاح کے گواہ اور حاضرین مجلسِ نکاح اس ایجاب و قبول کو سن بھی لیں تو اس سے نکاح منعقد ہو جائیگا ۔

ملاحظہ فرمائیں:

"ٹیلیفون پر نکاح کا حکم: سوال : اگر مجلس نکاح میں ایجاب و قبول ٹیلیفون کے ذریعے ہو جبکہ نکاح کے گواہ اور حاضرین مجلس ِنکاح اس ایجاب و قبول کو سن بھی لیں تو کیا اس سے نکاح ہو جائے گا ؟

الجواب: آج کل ٹیلیفون سیٹ کئی قسم کے ملتے ہیں مثلاً (۱) وہ ٹیلیفون سیٹ جس سے صرف ایک آدمی آواز سن سکتا ہے ۔ (۲) وہ ٹیلیفون سیٹ جن کے ذریعے بات کرنے والے ایک دوسرے کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ (۳) وہ ٹیلیفون سیٹ جن کے ذریعے بات چیت کرنے والوں کی آواز حاضرین مجلس بھی سن سکتے ہیں ۔ اول الذکر میں نکاح منعقد نہ ہوگا،اس لیے کہ گواہوں کے لیے ایجاب و قبول کا ایک ساتھ سننا ضروری ہے ،جو یہاں مفقود ہے، اور اخیرین میں چونکہ شہادت کے تمام تقاضے پورے ہو سکتے ہیں لہذا نکاح درست ہے ۔

قال العلامة الحصكفي : وشرط حضور شاهدین حرين او حر و حرتين مكلفينسامعين قولهما معا على الأصح. (الدر المختار على هامش رد المحتار ج ۲، ص۲۷۲، کتاب النکاح )"

(فتاوی حقانیہ ۴/ ۳۱۱ - ۳۱۲) ، اسی طرح دار الافتاء حقانیہ سے رابطہ  کر کے بھی  معلوم کیا جا سکتا ہے ۔

اب مجھے پوچھنا یہ ہے:

1۔  کہ جن حضرات نے مذکورہ طریقے پر نکاح کیا ہے، جبکہ دیگر دار الافتاؤں کے فتاوی کے بارے میں ان کو  معلوم نہیں تھا،  یا معلوم ہوتے ہوئے بھی دار العلوم حقانیہ  کے فتوی پر عمل کرتے ہوئے نکاح کرلیا، میں نکاح منعقد ہوا،  یا اعادہ نکاح ضروری ہے ؟

2۔  اگر اعادہ نکاح ضروری ہے تو تقوی کی رو سے یا فتوی کی رو سے؟

3۔ اگر فتوی کی رو سے اعادہ نکاح ضروری ہے تو اس ضابطے کیا محمل ہےکہ جب دو مختلف فتویٰ ہو تو مستفتی کو اختیار ہے وہ جس مفتی کے فتوی کو چاہئے اس پر عمل کرے؟ اور  کیا یہ ضابطہ درست بھی ہے ؟ اور اس کا محمل کیا ہے ؟

جواب

  نکاح کے  منعقد ہونے کے لیے دولہا و دولہن یا ان دونوں  کے وکیل کا نکاح کی مجلس میں  دو مسلمان عاقل بالغ  مرد وں  یا ایک مسلمان  مرد اور دو مسلمان خواتین کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنا شرعا ضروری ہے،  یعنی ایجاب و قبول کے لیے اتحاد  مجلس  شرعا ضروری ہے،  لہذا دولہا و دولہن میں سے کوئی ایک فون یا ویڈیو کالنگ پر اگر ایجاب و قبول کرتا ہے، تو ایسا ایجاب و قبول مجلس ایک نہ ہونے کی وجہ سے شرعا معتبر نہیں ہوگا،  اور نہ ہی اس طرح نکاح منعقد ہوگا۔

الفقه الإسلامي و أدلتهمیں ہے:

"قرار رقم (٦/ ٣/٥٤) بشأن [إجراء العقود بآلات الاتصال الحديثة]

إن مجلس مجمع الفقه الإسلامي المنعقد في دورة مؤتمره السادس بجدة في المملكة العربية السعودية من ١٧ - ٢٣ شعبان ١٤١٠ هـ الموافق ١٤ - ٢٠ آذار (مارس) ١٩٩٠ م.

بعد اطلاعه على البحوث الواردة إلى المجمع بخصوص موضوع:

إجراء العقود بآلات الاتصال الحديثة،

ونظرا إلى التطور الكبير الذي حصل في وسائل الاتصال وجريان العمل بها في إبرام العقود لسرعة إنجاز المعاملات المالية والتصرفات.

وباستحضار ما تعرض له الفقهاء بشأن إبرام العقود بالخطاب وبالكتابة وبالإشارة وبالرسول، وما تقرر من أن التعاقد بين الحاضرين يشترط له اتحاد المجلس (عدا الوصية والإيصاء والوكالة) وتطابق الإيجاب والقبول، وعدم صدور ما يدل على إعراض أحد العاقدين عن التعاقد، والموالاة بين الإيجاب والقبول بحسب العرف:

قرر:

١ - إذا تم التعاقد بين غائبين لا يجمعهما مكان واحد، ولا يرى أحدهما الآخر معاينة، ولا يسمع كلامه، وكانت وسيلة الاتصال بينهما الكتابة أو الرسالة أو السفارة (الرسول)، وينطبق ذلك على البرق والتلكس والفاكس وشاشات الحاسب الآلي (الكومبيوتر) ففي هذه الحالة ينعقد العقد عند وصول الإيجاب إلى الموجه إليه وقبوله.

٢ - إذا تم التعاقد بين طرفين في وقت واحد وهما في مكانين متباعدين، وينطبق هذا على الهاتف واللاسلكي، فإن التعاقد بينهما يعتبر تعاقدا بين حاضرين وتطبق على هذه الحالة الأحكام الأصلية المقررة لدى الفقهاء المشار إليها في الديباجة.

٣ - إذا أصدر العارض بهذه الوسائل إيجابا محدد المدة يكون ملزما بالبقاء على إيجابه خلال تلك المدة، وليس له الرجوع عنه.

٤ - أن القواعد السابقة لا تشمل النكاح لاشتراط الإشهاد فيه، ولا الصرف لاشتراط التقابض، ولا السلم لاشتراط تعجيل رأس المال.

٥ - ما يتعلق باحتمال التزييف أو التزوير أو الغلط يرجع فيه إلى القواعد العامة للإثبات."

(القرارات والتوصيات الصادرة عن مجلس مجمع الفقه الإسلامي في دورة مؤتمره السادس، ٧ / ٥١٧٤، ط: دار الفكر - سوريَّة - دمشق)

1۔ صورت مسئولہ میں ایسا نکاح چونکہ منعقد نہیں ہوا،  لہذا  گواہان کی موجودگی  میں باقاعدہ  نئے سرے سے  نکاح کا ایجاب و قبول  کر نا ضروری ہوگا،  اور اب تک جو وقت ساتھ گزرا اس پر توبہ و استغفار  کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح، ١ / ٢٦٩، ط: دار الفكر)

2۔ مسئولہ صورت میں  نکاح  کا اعادہ کرنا فتوی اور تقوی دونوں کے اعتبار سے ضروری ہے۔

3۔ وہ فروعی  مسائل جن میں   معاصر اہل علم کا اختلاف ہو ان میں ایک ایک عام انسان کس پر عمل پیرا ہو، اس کا ضابطہ یہ ہے کہ:

1۔  اوّلا ً توجس قول کو دلائل کی رو سے قوت حاصل ہو اس کواختیار کیا جائےگا۔

2- اگر ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو  (مثلاً عام آدمی کو دلائل اور ان کی قوت، استنباط اور طریقہ استنباط کا علم نہ ہو) تو پھر جس طرف جمہور اہلِ علم کا رجحان ہو اس قول پر عمل کرے۔

3- اگر دونوں رائے کے قائلین کی تعداد  یکساں  ہویا اتنی زیادہ ہو کہ اکثر اہلِ علم کا رجحان نہ معلوم ہوسکے تو پھر دونوں  جانب موجود علماء میں سے جن کے علم وتقویٰ پر اس کو زیادہ اعتماد ہو اور عام حالات میں بھی ان ہی کی رائے پر عمل کرتا ہو تو ان کی رائےکو لینا لازم ہوگا، یعنی جن علماء سے وہ عموماً راہ نمائی لیتا ہے اور ان کے بیان کردہ مسائل پر اسے اعتماد ہوتاہے، ان ہی کی رائے پر اس مسئلے میں عمل کرے، صرف سہولت یا خواہشِ نفس کی وجہ سے دوسرے عالم کے فتوے پر عمل نہ کرے، خواہ جواز کے قائل مفتی انتہائی متدین و متقی ہوں،نیز اس معاملے میں نفسانی خواہشات کی  آمیزش بالکل بھی   نہ آنے دے۔

4-  اگر بالفرض دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر علم وتقوی میں فضیلت یا فوقیت دینے سے عاجزہو تو پھر اس رائے کو اختیار کرے جس میں احتیاط زیادہ ہو، مثلاً: ایک جانب وجوب کا قول ہو اور دوسری جانب استحباب کا تو وجوب والی رائے پر عمل کرے ۔ یا ایک جانب حرمت کا فتوی ہو اور دوسری جانب گنجائش کا تو حرمت والی رائے اختیار کرےگا۔

نیز عوام کو  ہمیشہ احتیاط والے پہلو  پر عمل کرنا چاہیے، آن لائن نکاح کا مسئلہ چونکہ اکثر معاصر اہل فتوی کے نزدیک  متفقہ ہے، لہذا اس مسئلہ میں کسی کے  تفرد پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ اختلاف اولی اور خلاف اولی میں نہیں، بلکہ جائز اور ناجائز میں ہے، ایسی صورت میں ناجائز کو ترجیح ہوتی ہے، اس پر ہی عمل کرنا لازم ہوتا ہے اس لیے شرعی طریقہ سے دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے ورنہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں ہوگا۔

فتح القدير على الهدايةمیں ہے:

"والعامي لا عبرة بما يقع في قلبه من صواب الحكم وخطئه، وعلى هذا إذا استفتى فقيهين: أعني مجتهدين فاختلفا عليه الأولى أن يأخذ بما يميل إليه قلبه منهما. وعندي أنه لو أخذ بقول الذي لا يميل إليه قلبه جاز لأن ميله وعدمه سواء، والواجب عليه تقليد مجتهد وقد فعل أصاب ذلك المجتهد أو أخطأ. وقالوا المنتقل من مذهب إلى مذهب آخر باجتهاد وبرهان آثم يستوجب التعزير فبلا اجتهاد وبرهان أولى، ولا بد أن يراد بهذا الاجتهاد معنى التحري وتحكيم القلب لأن العامي ليس له اجتهاد."

(كتاب أدب القاضي، ٧ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"قال في البحر: لأن ‌العامي يجب عليه تقليد ‌العالم إذا كان يعتمد على فتواه ثم قال وقد علم من هذا أن مذهب ‌العامي فتوى مفتيه من غير تقييد بمذهب ولهذا قال في الفتح: الحكم في حق ‌العامي فتوى مفتيه، وفي النهاية ويشترط أن يكون المفتي ممن يؤخذ منه الفقه ويعتمد على فتواه في البلدة وحينئذ تصير فتواه شبهة ولا معتبر بغيره. اهـ۔"

 (کتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،٢ / ٤١١، ط: دارالفكر)

عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليدمیں ہے:

"اعلم أن العامي الصرف ليس له مذهب وإنما مذهبه فتوى المفتي في البحر الرائق لو احتجم أو اغتاب فظن أنه يفطره ثم أكل إن لم يستفت فقيها ولا بلغه الخبر فعليه الكفارة لأنه مجرد جهل وأنه ليس بعذر في دار الإسلام وإن استفتى فقيها فأفتاه لا كفارة عليه لأن العامي يجب عليه تقليد العالم إذا كان يعتمد على فتواه فكان معذورا فيما صنع وإن كان المفتي مخطئا فيما أفتى."

(فصل في العامي، ص: ٣٠، ط: المطبعة السلفية - القاهرة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں