بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر تین طلاق دینے کے بعد جج کے سامنے انکار کرنا اور ایک سال بعد بیوی کی بہن سے نکاح کرنا


سوال

میرے سابقہ شوہر نے 8 اکتوبر2020 کو فون پر تین طلاقیں دیں لیکن جج کے سامنے حلف اٹھایا کہ میں نے نہیں دی، مجھے مجبوراًخلع لینی پڑی جو 2 ستمبر 2021 میں گرانٹ ہوئی اور 24 ستمبر 2021 کو (اس نے) میری سگی بہن سے نکاح کر لیا، مجھے یہ بتائیں کہ کیا یہ نکاح حرام ہو گیا؟ پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ میرا 9 سال کا بیٹا ان کے پاس ہے اور میں نہیں چاہتی کہ وہ ایسے ماحول میں پلے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے اگر واقعتاً 8 اکتوبر 2020 کو فون پر تین طلاقیں دے دیں تھی تو اسی وقت سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہو گئی تھیں اورسائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی تھی اور اس کے بعد سائلہ پر عدت لازم تھی جس کی مدت حمل نہ ہونے کی صورت میں پوری تین ماہواریاں اور حمل ہونے کی صورت میں بچے کی پیدائش تک تھی، شوہر کا جج کے سامنے جھوٹا حلف اٹھانے  کا گناہ اسی پر ہے، اس سے طلاق پر کوئی فرق نہیں پڑا، اس کے بعد جب 25 ستمبر 2021 کو سائلہ کے سابقہ شوہر نے سائلہ کی سگی بہن سے نکاح کر لیا تو چوں کہ اس وقت تک سائلہ کی عدت مکمل ہو چکی تھی اس لیے یہ نکاح بھی درست تھا، سائلہ کی  طلاق ایک سال قبل ہو چکی تھی اور سائلہ نے محض شوہر کے انکارکے باعث عدالت سے خلع کی ڈگری لے لی تو اس خلع کی کاغذی کارروائی سے سائلہ پر مزید کوئی عدت لازم نہیں ہوئی۔

البتہ سائلہ کے 9 سالہ بیٹے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بچے کے والد ہی پر ہے، سائلہ بیٹے کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، ہاں بالغ ہونے کے بعد بیٹے کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ والد اور والدہ میں سے کسی کے پاس رہائش اختیار کر سکے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

ترجمہ :" کبیرہ گناہ یہ ہیں ؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا۔"

(‌‌‌‌كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137 ط :المطبعة الكبرى الأميرية )

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠]."

(کتاب الطلاق ،فصل: وأما حکم الطلاق البائن،3/187،ط:سعید)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب."

(حاشية ابن عابدين ، کتاب الطلاق، باب الحضانة، 3/ 566، ط:سعید)

وفيه أيضاَ:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية".

وفي الرد:

"(قوله: ولا خيار للولد عندنا) أي إذا بلغ السن الذي ينزع من الأم يأخذه الأب، ولا خيار للصغير لأنه لقصور عقله يختار من عنده اللعب، وقد صح أن الصحابة  لم يخيروا."

(أيضاً 3/ 567)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و) حرم (الجمع) بين المحارم (نكاحا) أي عقدا صحيحا (وعدة ولو من طلاق بائن)".

وفي الرد:

"(قوله: ولو من طلاق بائن) شمل العدة من الرجعي، أو من إعتاق أم ولد خلافا لهما أو من تفريق بعد نكاح فاسد، وأشار إلى أن من طلق الأربع لا يجوز له أن يتزوج امرأة قبل انقضاء عدتهن، فإن انقضت عدة الكل معا جاز له تزوج أربع، وإن واحدة فواحدة بحر. [فرع] ماتت امرأته له التزوج بأختها بعد يوم من موتها كما في الخلاصة عن الأصل".

(‌‌‌‌كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/ 38)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں