بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر بیوی کو طلاق طلاق طلاق کہنے کا حکم


سوال

اگر کسی شخص نے اپنی زوجہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کسی رنجش پر صرف طلاق، طلاق، طلاق کا لفظ استعمال کیا تو کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے بیوی کو طلاق دینے کی نیت سے یہ الفاظ ( طلاق،طلاق،طلاق) کہے تھے تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں؛ کیوں کہ اگرچہ ان الفاظ میں صراحۃً  بیوی کی طرف اضافت نہیں ہے، لیکن فون پر اسی سے مخاطب ہونے کی وجہ سے معنوی اضافت موجود ہے، اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہونے کی وجہ سے اب اس کی زوجہ اس پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے نکاح ختم ہوچکا ہے، لہٰذا رجوع اور دوبارہ نکاح ناجائز اور حرام ہے، زوجہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے، البتہ جب بیوی اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کرے اور دوسرے شوہر سے صحبت (جسمانی تعلق) قائم ہوجائے پھر اس کے بعد دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے  یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248):
"لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها.
(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ. أقول: وما ذكره الشارح من التعليل أصله لصاحب البحر أخذًا من قول البزازية في الأيمان قال لها: لاتخرجي من الدار إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لايقع؛ لعدم حلفه بطلاقها، ويحتمل الحلف بطلاق غيرها فالقول له. اهـ. ومثله في الخانية، وفي هذا الأخذ نظر، فإن مفهوم كلام البزازية أنه لو أراد الحلف بطلاقها يقع لأنه جعل القول له في صرفه إلى طلاق غيرها، والمفهوم من تعليل الشارح تبعًا للبحر عدم الوقوع أصلاً لفقد شرط الإضافة، مع أنه لو أراد طلاقها تكون الإضافة موجودة ويكون المعنى فإني حلفت بالطلاق منك أو بطلاقك، ولايلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له: من عنيت؟ فقال: امرأتي، طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيًا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لاأشرب وكان كاذبًا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لاتطلق ديانةً اهـ وما في التحفة لايخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاءً فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبًا لايقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحًا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلايخالف ما في البزازية، ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال: طلقت امرأة ثلاثًا وقال: لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأنّ العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها؛ لأنه يحتمله كلامه، بخلاف ما لو ذكر اسمها أو اسم أبيها أو أمها أو ولدها فقال: عمرة طالق أو بنت فلان أو بنت فلانة أو أم فلان، فقد صرحوا بأنها تطلق، وأنه لو قال: لم أعن امرأتي لايصدق قضاءً إذا كانت امرأته كما وصف كما سيأتي قبيل الكنايات وسيذكر قريبًا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم".

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات". (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق 4/427/ 429، ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ج3، ص: 102، دار الكتب العلمية)

ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية)

البحر الرائق میں ہے:

"وعدة الحامل وضع الحمل؛ لقوله تعالى: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ (الطلاق: 4) (باب العدة: ج4، ص133، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ومبدأ العدة بعد الطلاق والموت) یعنی ابتداء عدة الطلاق من وقته ... سواء علمت بالطلاق والموت أو لم تعلم حتى لو لم تعلق ومضت مدة العدة فقد انقضت؛ لأن سبب وجوبها الطلاق ... فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، كذا في الهداية". (كتاب الطلاق، باب العدة، 4/144/ ط: سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں:  میں نے حالت غصہ میں یہ کلمے کہے ہیں: (طلاق دیتا ہوں طلاق طلاق) اور میں نے کوئی کلمہ فقرہ بالا سے زیادہ نہیں کہا اور نہ میں نے اپنی منکوحہ کا نام لیا اور نہ اس کی طرف اشارہ کیا اور نہ وہ اس جگہ موجود تھی اور نہ اس کی کوئی خطا ہے، یہ کلمہ صرف بوجہ تکرار (یعنی نزاع) یعنی میری منکوحہ کی تائی کے نکلےجس وقت میرا غصہ فرو ہوا فوراً اپنی زوجہ کو لے آیا، ان دو اشخاص ہیں ایک میرے ماموں اور ایک غیرشخص ہے اور مستوراتیں ہیں؟

الجواب: چوں کہ دل میں اپنی منکوحہ کو طلاق دینے کا قصد تھا؛ لہٰذا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں‘‘۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’سوال: زید نے اپنے والدین سے غصہ کی حالت میں بوجہ خفگی والدین اس کی زوجہ پر اور اس پر یہ الفاظ کہے: طلاق، طلاق، طلاق، تین مرتبہ یعنی اس لفظ طلاق کو کسی طرف منسوب نہیں کیا اور یہ کہا کہ میں کہیں چلا جاؤں گا یا بھیک مانگ کر کھاؤں گا، آیا یہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟

جواب: موافق تصریح علامہ شامی کے اس صورت میں زید کی زوجہ مطلقہ ثلاثہ ہوگئی‘‘۔ (کتاب الطلاق 9/196، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں