میرے دوست کا اپنی بیوی سے کئی دنوں سے تنازع چل رہا تھا، ایک دن اس نے اپنی بیوی کو فون کرکے تین دفعہ یہ الفاظ کہے”میں طلاق دے رہا ہوں، میں طلاق دے رہا ہوں، میں طلاق دے رہا ہوں“لیکن ”تجھے یا تمہیں“ کا لفظ استعمال نہیں کیا، آیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ جھگڑے کے دوران اسی طرح غصہ کی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کی طرف صریح نسبت اور اضافت ضروری نہیں ہے، بل کہ معنوی اضافت بھی کافی ہے۔
مذکورہ تفصیل کی روسے صورتِ مسئولہ میں اگرچہ آپ کے دوست نے مذکورہ تنازع کے دوران اپنی بیوی کو ”تجھے اور تمہیں“ وغیرہ الفاظ سے مخاطب نہيں كيا لیکن اس کا اپنی بیوی کو فون کر کے اُسے یہ كہنا كہ ”میں طلاق دے رہا ہوں، میں طلاق دے رہا ہوں، میں طلاق دے رہا ہوں“ سے قرائن اور معنوی اضافت ہونے کی وجہ سے اس کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، اور اُس کی بیوی اُس کے لیے حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے، اب دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہ واریاں حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
" فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ (230)." (سورة البقرة ، آية : 230)
ترجمہ:
” پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ ( عدت کے بعد ) نکاح کرلے۔“(ازبیان القرآن)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"المراد بقوله تعالى:" فإن طلقها" الطلقة الثالثة" فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره". وهذا مجمع عليه لا خلاف فيه. "
(سورۃ البقرۃ ، آیت : 230 ، ج : 3 ، ص : 147 ، ط : دار الكتب المصرية)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(كتاب الطلاق ، فصل في حكم الطلاق البائن ، ج : 4 ، ص : 403 ، ط : دار الكتب العلمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج : 1، ص : 506، دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح......(قوله لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق".
(کتاب الطلاق، باب الصريح ، ج : 3، ص : 247/48، ط : سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102267
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن