بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر وکیل اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح


سوال

میں نے برطانیہ میں مقیم ایک خاتون سے فون پر گواہوں اور عورت کی طرف سے مقرر وکیل کی موجودگی میں نکاح کیا ہے اور میں خود دبئی میں مقیم ہوں اسلام میں اس نکاح کی کیا حیثیت ہے اور اگرہم چار مہینہ کے اندر نہیں ملتے تو کیا یہ نکاح برقرار رہے گا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر  نکاح کے گواہ یا وکیل اُس مجلس میں موجود نہیں تھے   جہاں آپ موجود تھے تو مذکورہ نکاح شرعًا منعقد ہی نہیں ہوا، کیوں کہ نکاح منعقد ہونے کے لیے عاقدین (دلہا اور دلہن یا دلہن کے وکیل) اور گواہوں کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے، اور فون پر کال کے ذریعے مجلس ایک نہیں ہوتی۔

تاہم اگر خاتون  کا وکیل  مجلسِ نکاح میں موجود تھا، اور گواہ بھی اس مجلس میں موجود تھے تو یہ نکاح شرعا صحیح ہے ۔

 نکاح کے بعد میاں بیوی کے آپس میں ایک دوسرے سے دور رہنے سے نکاح   پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،نکاح برقرار رہتاہے،البتہ شوہر پر بیوی کے کچھ حقوق ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے ،ایک دوسرے سے دور رہنے کی صورت میں ان کا فوت ہونا لازم آتا ہے جو نکاح کی مصلحت کے خلاف ہے، اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمومًا اپنی افواج کی تشکیل چار ماہ کردی تھی ،لہذا چار ماہ سے زیادہ عرصہ کےلیے ایک دوسرے سے دوررہنا مناسب نہیں ،لیکن اتنی  مدت یا اس سے زیادہ دور رہنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (و) شرط (حضور) شاهدين(حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الاصح."

(کتاب النکاح ،ج۳،ص۲۱،ط سعید)

وفي الدر المختار :

"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

(رد المحتار3/ 14ط:سعيد)

وفي الفتاوى الهندية :

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولا أو كتب إليها بذلك كتابا فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما."

(1/ 269ط:دار الفكر)

وفي حاشية ابن عابدين :

"(قوله: و لايبلغ مدة الإيلاء) ...ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(3/ 203ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201571

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں