بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر ایجاب و قبول سے نکاح کا حکم


سوال

2012 کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا آپس میں محبت کا تعلق تھا۔ لڑکی اونچے خاندان والی تھی، جس کی وجہ سے لڑکے کو ڈر تھا کہ لڑکی کے گھر والے تیار نہیں ہوں گے،  اس لئے لڑکی سے کہا کہ بھاگ کر شادی کرتے ہیں، لڑکی ایسا کرنے کو تیار نہیں تھی، لڑکے نے کہا اگر ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہو تو ہماری محبت کو ختم سمجھو، محبت کو برقرار رکھنے کے لیے لڑکی نے کہا کہ میں بھاگ کر شادی کےلئے تیار ہوں، لڑکی کے خاندان کو پتہ چلتا ہے اور وہ لڑکی کو گھر میں بند کردیتے ہیں،  لڑکے کو معلوم ہوتا ہے تو وہ چھپ کر لڑکی کے گھر کے پاس آتا ہے اور فون پر اسے بتاتا ہے کہ وہ ایک خالی کاغذ پر اپنا دستخط کر کے باہر پھینک دے، میں اس کو نکاح فارم میں آپ کے دستخط کی جگہ لگا دوں گا،  اسی طرح لڑکی اپنا دستخط دیتی ہے، لڑکا قاضی کے پاس جاتاہے اور کہتا ہے کہ مجھے لڑکی نے اجازت دی ہے میرا نکاح کردو،  قاضی کہتا ہے کہ لڑکی کا کوئی ولی یا وکیل نہیں ہے، اسی مجلس میں لڑکا لڑکی کو فون کرتا ہے، لڑکی مجبور ہو کر کہتی ہے کہ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہوں، لڑکی کہتی ہے اس مجلس میں کیا ہوا تھا؟ مجھے سب کچھ یاد نہیں، اتنا یاد آتا ہے کہ قاضی کہہ رہا تھا کہ فلاں بن فلاں نے فلاں بنت فلاں کے لیے 5 لاکھ مہر پیش کئے۔ (قاضی کی سب باتیں لڑکی کو یاد نہیں) اسی دوران لڑکی بار بار لڑکے کو فون کرتی ہے کہ ایسا نہ کرو لیکن لڑکا کہتا ہے کہ اگر محبت برقرار رکھنی ہے تو یہ کرنا ہوگا۔ اسی مجلس میں یہ لڑکا تھا اور ایک اس کا دوست اور ایک قاضی، لڑکی یہ بھی کہتی ہے کہ میں نے کسی کو وکیل نہیں بنایا۔ کیا اس صورت میں یہ نکاح ہوا ہے ؟ واقعہ 2012 کا ہے اور لڑکی کو صرف مذکورہ بالا باتیں یاد ہیں۔

جواب

اگر یہ لڑکی نکاح کی مجلس میں حاضر نہیں تھی اور نہ ہی اس نے نکاح کی مجلس میں موجود کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنایا تھاتو فون پرصرف اتنا کہنے ’’ میں اس لڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘ سے نکاح نہیں ہوا، کیوں کہ صرف اتنی بات کہنا نکاح پر رضامندی کا اظہار ہے،نہ ایجاب ہے نہ قبول، جب کہ صرف رضامندی کا اظہار کرنے سے نکاح نہیں ہوتا۔ 

نیز واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے نامحرم مرد و عورت کو بلاضرورت باہم بات کرنے سے منع کیا ہے، جب نامحرم سے بلاضرورت بات کرنا منع ہے تو اس سے قلبی محبت کا تعلق رکھنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ بہرحال اس فعل کی وجہ سے دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس گناہ سے توبہ کریں۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا ينعقد بلفظ الإجارة في الصحيح والإعارة والإباحة والإحلال والتمتع والإجازة والرضا ونحوها، كذا في التبيين."

(كتاب النكاح، الباب الثاني فيما ينعقد بي النكاح،1/ 272، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

" وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة: ولا ‌يكلم ‌الأجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ.

وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة (قوله في نقل القهستاني) أي عن بيع المبسوط (قوله زائدة) يبعده قوله في القنية رامزا ويجوز الكلام المباح مع امرأة أجنبية اهـ وفي المجتبى رامزا، وفي الحديث دليل على أنه لا بأس بأن يتكلم مع النساء بما لا يحتاج إليه، وليس هذا من الخوض فيما لا يعنيه إنما ذلك في كلام فيه إثم اهـ "

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، 6/ 369، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں