پہلی طلاق کو اگر چھ ماہ سے زیادہ ہوجائے، تو رجوع کا کیا طریقہ ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر طلاقِ رجعی ہو، یا طلاقِ بائن، عدت مکمل(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) ہوجانے کے بعد اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں، تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ شرعی گواہوں(دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں میاں بیوی نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرلیں، اور اس کے بعد پھر دونوں میاں بیوی ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔
تاہم اگر پہلے طلاق کی عدت ابھی تک مکمل نہ ہوئی ہو، تو پھر اس صورت میں طلاقِ بائن میں دوباره تجديدِ نكاح كرنا هے،اور طلاقِ رجعی میں عدت کے دوران صرف رجوع کرنا ہے ،دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ شوہر کو بلا نکاح بھی قولاً اور فعلاً اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا شرعاً حق حاصل ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطلیقة رجعیة أو تطلیقتین فله أن یراجعها فی عدتها رضیت بذلك أو لم ترض كذا فی الهدایة."
(کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعة، ج: 1، ص: 471، ط: رشیدیة)
وفیه أیضاً:
"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، ص: 468، ط:رشیدیة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:409، ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا."
(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق، ج: 4، ص: 491، ط: رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101878
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن