بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’پھر تیری مرضی ہے‘‘ سے طلاق کا حکم


سوال

آنے والے دن/وقت یا زمانے کے لیے غصے میں ہمبستری سے انکار کرنے پر میں نے غصے میں اپنے بیوی سے کہہ دیا کہ(پھر اپنی مرضی کرو) اس الفاظ کے ادا ہونے سے پہلے میرا کوئی یقینی طور ارادہ نہیں تھا کہ اپنے بیوی کو طلاق دے دوں، مگر اس الفاظ کے ادا ہونے کے بعد میں غم میں پڑ گیا کہ کہیں طلاق تو نہیں ہوئی، اور سوچنے لگا کہ کہیں طلاق کی نیت سے تو نہیں کہا،ان الفاظ(پھر اپنی مرضی کرو) کے کہنے کے بعد ابھی تک میں خود کو واضح نہ کر سکا کہ میری نیت کیا تھی، تو اب میرے لیے اللہ کی شریعت میں کیا حکم ہے، میں اپنے بیوی کو بے حد چاہتا ہوں، مگر ابھی بیوی کو شک کے نظروں سے دیکھنے لگا ہوں، آپ جلدی جواب  دیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق  واقع ہونے کے لیے طلاق کے صریح الفاظ(یعنی جو الفاظ،طلاق کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے استعمال ہی نہیں ہوتے)،یا پھر کنائی الفاظ(یعنی وہ الفاظ،جن کو دوسرے مقاصد کے ساتھ،ساتھ،عرف میں طلاق کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہو)،ضروری ہے،ایسے الفاظ نہ ہونے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ ’’پھر اپنی مرضی کرو‘‘  کے الفاظ نہ طلاق کے صریح الفاظ ہیں اور نہ ہی کنائی الفاظ،اس لیے ان سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

"رد المحتار علي الدر المختار"میں ہے:

"وهو...رفع ‌قيد النكاح  في الحال بالبائن أو المآل بالرجعي بلفظ مخصوص هو ما اشتمل على الطلاق."

"قوله هو ما اشتمل على الطلاق: أي على مادة ط ل ق صريحا، مثل أنت طالق، أو كناية كمطلقة بالتخفيف وكأنت ط ل ق وغيرهما ."

(ص:227،ج:3،کتاب الطلاق،،ط:ایج ایم سعید)

وفيه ايضا:

"كنايته عند الفقهاء ما لم يوضع له أي الطلاق واحتمله وغيره."

(قوله كنايته عند الفقهاء) أي كناية الطلاق المرادة في هذا المحل...لأن ما ذكروه في تعريف الكناية ليس على إطلاقه، بل هو مقيد بلفظ يصح خطابها به ويصلح لإنشاء الطلاق الذي أضمره...فليس كل ما احتمل الطلاق من كنايته بل بهذين القيدين ولا بد من ثالث هو كون اللفظ مسببا عن الطلاق وناشئا عنه كالحرمة في أنت حرام ونقل في البحر عدم الوقوع، بلا أحبك لا أشتهيك لا رغبة لي فيك وإن نوى. ووجهه أن معاني هذه الألفاظ ليست ناشئة عن الطلاق لأن الغالب الندم بعده فتنشأ المحبة والاشتهاء والرغبة."

(ص:296،ج:3،کتاب الطلاق،باب الکنایات،ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں