بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پھیری والوں سے کوپن کے ذریعے سامان خریدنے کا حکم


سوال

 ہمارے یہاں محلوں میں پھیری والے کوپن لےکر آتے ہیں، کوپن کی قیمت مثلاً 50 روپیہ ہوتی ہے،  اسے کوئی خریدتا ہے تو پچاس روپے ادا کرنے ہوں گے،  اور اس کے بعد اسے کُھرچا جاتا ہے، تو اس میں کوئی نہ کوئی سامان مثلاً: پنکھا، کولر،  گیس چولہا نکلتا ہے،  جس کی قیمت الگ سے ادا کرنا پڑتی ہے،  اور پھیری والے پہلے قیمت بتا بھی دیتے ہیں کہ نکلنے والے سامانوں کی قیمت اتنی ہوگی،  اگر سامان نکلنے کے بعد نہ لے تو کوئی بات نہیں،  لیکن کوپن والے پچاس روپے واپس نہیں  ملتے،  اگر کوئی پھیری والے سے کوپن خریدتا ہے، تو اس میں جو گیس چولہا نکلتا ہے، تو اس گیس چولہا کا استعمال کرنا شرعاً کیسا ہے؟  اور پھیری والوں سے لوگوں کا اس طرح کا معاملہ کرنا قمار میں داخل ہے یا بیع میں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ کوپن خریدنے کی صورت میں یہ احتمال بھی ہے کہ کوئی سامان(پنکھا وغیرہ) نکل آئے اور یہ احتمال بھی ہے کہ کچھ نہ نکل آئے،  لہذا  مذکورہ کوپن خریدنے میں قمار کا پہلو پایا جاتاہے،  اس لیے مذکورہ طریقہ پر کوپن  کے ذریعے سامان خرید نا جائز نہیں ہے۔

'احکام القرآن للجصاص' میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه."

(سورة البقرة، ‌‌باب تحريم الميسر، ج: 1، ص: 398، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 403، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں