بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

فارمیسی میں خریدی گئی اشیاء پر تصرف کا شرعی اختیار


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ میرا ایک دوست ہےجس کا نام زید ہے،اس نے ایک فار میسی کھول رکھی ہے،جہاں میڈیسن کمپنیوں کے ایجنٹ اور نمائندے میڈیسن فروخت کرنے آتے ہیں،چونکہ زید کمپنی کا پرانا اور مستقل کسٹمر ہے اس لیے زید کو باقی لوگوں کے بنسبت  مخصوص تعداد میں دوائیا ں خریدنے پر اچھا ڈسکاؤنٹ  ملتاہے۔ایک دن زیدنے کہا کہ آپ بھی انویسٹ کریں، صورت یہ ہوگی  کہ آپ کے مال سے دوائیاں خرید کر میں فروخت کروں گااور نفع کا ستر فیصد میرا ہوگا اور تیس فیصد میرے دوست زید کا ہوگا اس طرح میں اس کام میں زید کے ساتھ شریک ہوگیا۔اب میں نے زید سے کہا کہ کام تو اچھا ہےکیوں نہ میں بھی فارمیسی کھول لوں؟زید نے کہا ضرور کھولیں۔صورت یہ ہوگی کہ آپ ایک کلینک کھولیں اس کے ساتھ ایک فارمیسی کھولیں،میرے پاس جب کمپنی کا نمائندہ آئے گا میں آپ کے پاس بھیج دوں گاپھر آپ اس سے دوائیاں خریدیں اور اپنی فارمیسی پر بھی فروخت کریں اور آگے کہیں اور بھی فروخت کریں،زید کی بات سے یہ سمجھ آیا کہ کمپنی کو یہ باور کرانا ضروری ہوگاکہ تمام دوائیاں میری ہی فارمیسی میں فروخت ہوں گی جب کہ میں ساری دوائیاں اپنی ہی فارمیسی پر فروخت نہیں کرسکتایقینا کسی دوسری فارمیسی پر  بھی فروخت کرنے پڑیں گی ۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا میرا یہ عمل شرعا درست ہےکہ اپنی فارمیسی پر فروخت کے نام پر دوائیاں خرید کرکسی دوسری فارمیسی پر فروخت کروں جبکہ کمپنی کے ساتھ باضابطہ کوئی معاہدہ نہیں  کہ میں کسی اور فارمیسی پر فروخت نہیں کروں گا،علاوہ ازیں کمپنی بھی یقینا جانتی ہے کہ اتنی تعداد میں دوائیاں فروخت کرنا ایک ہی کلینک یا فارمیسی کےلیے ممکن نہیں ،بلکہ فارمیسی والا کچھ خود فروخت کرے اور کچھ مارکیٹ میں دوسری فارمیسی کے ذریعہ فروخت کرے گا۔اس صورت حال کے پیش نظر کیامجھے اس کاروبار کاحصہ بننا چاہیےیانہیں؟

اور کمپنی کی طرف سے یہ شرط لگانا شرعا کیسا ہے کہ میں اپنی ہی فارمیسی پر فروخت کرسکتاہوں کسی دوسری فارمیسی پر فروخت نہیں کرسکتا؟کیا کمپنی کی طرف سے یہ شرط شرط فاسد نہیں ؟اگر کمپنی شرط لگابھی دے توکیا میرے لیےاس شرط کی پاسداری لازم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو خرید کرا س پر قبضہ کرلے تو وہ چیز اس کی ملکیت ہوجاتی ہے ،اور اس شخص کو اس خریدی ہوئی چیز میں ہر طرح کے تصرف کااختیار ہوتاہے ،چاہے اس کو خود بیچے یا کسی اور کو بیچنے کےلیےدے،لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے جب میڈیسن کمپنی کے نمائندے سے دوائیاں خرید کران پر قبضہ کرلیا تو اب سائل کواختیار ہے، چاہے وہ دوائیاں اپنی فارمیسی پر فروخت کرے ،چاہے کسی اور فارمیسی کو فروخت کرنے کےلے دے ،لہذا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے،اور سائل کےلیے اس طرح کے معاملہ کا حصہ بننا جائز ہے،البتہ دوائیاں خریدنےاور بیچنے میں کسی قسم کادھوکہ موجود نہ ہو ۔

لیکن اگر کمپنی معاملہ کرتے وقت یہ شرط لگائے کہ سائل دوائیاں صرف اپنی فارمیسی پر فروخت کرے گا کسی اور کو فروخت کرنے کےلیے نہیں دے گا ،تو یہ شرط فاسد ہے جس  سے عقد فاسد ہوجاتا ہے،اور عقد فاسد کا ختم کرنا ضروری ہے ، لہذا اس صورت میں  کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم البيع...(أما) الحكم الأصلي، فالكلام فيه في موضعين: في بيان أصل الحكم، وفي بيان صفته.

(أما) الأول: فهو ثبوت الملك للمشتري في المبيع، وللبائع في الثمن للحال."

(كتاب البيوع،فصل في حكم البيع،ج:5،ص: 233،ط:دار الكتب العلمية)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"للإنسان أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره."

(‌‌(المادة 216) بيع حق المرور،الباب الرابع في بيان المسائل التي تتعلق بمدة الإجارة،ج:1،ص: 559،ط:دار الجيل)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"وكل ‌شرط ‌لا ‌يقتضيه ‌العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده، كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع لأن فيه زيادة عارية عن العوض؛ فيؤدي إلى الربا، أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعرى العقد عن مقصوده."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،ج:2،ص: 27،ط:المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)

البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"‌ولكل ‌واحد ‌من ‌المتعاقدين ‌فسخه ‌رفعا ‌للفساد، وهذا قبل القبض ظاهر لأنه لم يفد حكمه، فيكون الفسخ امتناعا منه، وكذا بعد القبض إذا كان الفساد في صلب العقد لقوته، وإن كان الفساد بشرط زائد فمن له الشرط ذلك دون من عليه لقوة العقد، إلا أنه لم تحقق المراضاة في حق من له الشرط."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،فسخ البيع الفاسد،ج:8،ص:203،ط:دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144612101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں