بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پھلوں کو پکنے تک درختوں پر لگے رہنے کی شرط کے ساتھ بیع کرنے کا حکم / بائع پر نقصان کی شرط لگانے کا حکم


سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی کے پہاڑوں میں چلغوزے  کے بہت سارے درخت ہیں ،وہ شخص کسی دوسرے آدمی سے چلغوزے کے پھل کی بیع کرتاہےاس طورپر کہ آپ ابھی ہمیں چھ لاکھ روپے دے دو،جب  پھل پک جائےگااور حاصل ہوگاتو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگا،ایک حصہ یعنی آدھا ہمارا یعنی بائع کااور ایک حصہ تمہارایعنی مشتری کااور چلغوزے کے اوپر جو درختوں سے کٹوانے اور صاف کرنے کا خرچہ آئے گا ،وہ بھی دونوں پر آدھا آدھا تقسیم ہوگا،کیوں کہ کٹائی اور صفائی ستھرائی کے لیے  تیس یا چالیس بندوں کی ضرورت پڑتی ہےاورچلغوزے کٹوانے اور صاف کرنے کی ذمہ داری مشتری کی ہوگی۔

شرائط:مشتری کو اگر چھ لاکھ یا اس سے زیادہ کا منافع ہوایعنی مشتری کے حصے میں جو پھل آئے گا اگر وہ چھ لاکھ یا اس سے زیادہ کا ہوگاتو پھر بیع صحیح یعنی برقرار رہے گی اور اگر نفسِ ثمن سے کم منافع ہوایعنی اگر چھ لاکھ سے کم منافع ہواتو بقایا نقصان ہم یعنی بائع پورا کریں گے ،اور اگر پہاڑوں تک انٹری نہیں ہوئی تو بھی چھ لاکھ پورے واپس کریں گے،کیوں کہ پہاڑوں میں فوج رہتی ہے ،وہاں ان کا قبضہ ہے،لہذا اگر وہ  اجازت دیں گے تو جاکر پھل حاصل کرنا ممکن ہوگا ورنہ اجازت نہ ہونے کی صورت میں پھل نہیں  حاصل کرسکیں گے، کیا اس طرح بیع/سودا کرنا ٹھیک ہے؟

وضاحت (1):بیع کا معاملہ کرتے وقت درختوں پر پھل آچکا تھا ،البتہ ابھی پک کر تیار نہیں ہوا نہیں تھا،پکنے وغیرہ میں دو ڈھائی مہینے کا وقت لگے گا۔

(2):یہ درخت بائع کے ذاتی ہیں،پہاڑوں میں ہر قبیلہ اور ہر شخص کی ذاتی جگہیں ہوتی ہیں اور اسی طرح وہاں جو درخت ہوتے ہیں وہ اسی شخص کے ہوتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ جب درختوں پر لگے پھل کی بیع کی جائے تو اس کی چند صورتیں بنتی ہیں ،جن میں سے کچھ صورتیں جائز ہیں، ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ درخت پر پھل آچکے ہوں لیکن ابھی پک کر تیار نہ ہوئے ہوں اور ان کی بیع کردی جائے  اور پھل کے کاٹنے سے متعلق کوئی شرط نہ رکھی جائے یایہ شرط رکھی جائے کہ مشتری فورا پھل کاٹ کر درخت فارغ کردے تو اس صورت میں بیع جائز ہوتی ہے اور اگر بیع میں یہ شرط لگادی جائے کہ پکنے تک وہ پھل درخت پر رہیں تو یہ شرط لگانا شرعاً درست نہیں اور اس طرح بیع کرنا جائز نہیں۔

اسی طرح بیع میں مبیع کا معلوم ہونا اور اس کی  مقدار متعین کرنا اور اس کا بیع کے وقت حوالے کرنے پر  بائع کی قدرت کا ہونا ضروری ہے،اگر مبیع متعین نہ ہو یا اس کی مقدار متعین نہ ہو یا اس کے حوالہ کرنے پر قدرت نہ ہوتو اس طرح بیع  جائز نہیں  ہوتی،اور اسی طرح بیع میں نقصان کی ذمہ داری کی شرط  بائع پر لگانا درست نہیں۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں بیع کا مذکورہ معاملہ چند وجوہات کی وجہ سے شرعاً درست نہیں ہے:

1:مذکورہ معاملہ میں مبیع کی مقدار متعین نہیں ہے۔

2:مذکورہ بیع کے معاملہ کے وقت بائع کو ا س کے حوالہ کرنے پر قدرت حاصل نہیں ۔

3:پھل کو پکنے تک درخت پر لگے رہنے کی شرط کے ساتھ یہ بیع کا معاملہ کیا گیاہے۔

4:بیع کے مذکورہ معاملہ میں بائع پر نقصان کی ذمہ داری کی شرط لگائی گئی ہے۔

لہذا بیع کامذکورہ معاملہ مذکورہ وجوہات کی بنا پر شرعاً جائز نہیں۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال (ومن باع ثمرة بدا صلاحها أو لا صح)..قال (ويقطعها المشتري) تفريغا لملك البائع هذا إذا اشتراها مطلقا أو بشرط القطع قال (وإن شرط تركها على النخل فسد) أي البيع؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد وهو شغل ملك الغير أو نقول إنه صفقة في صفقة؛ لأنه إجارة في بيع إن كان للمنفعة حصة من الثمن أو إعارة في بيع إن لم يكن لها حصة من الثمن وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن صفقة في صفقة»."

(كتاب البيوع،12/4،ط:المطبعة الكبري الأميرية،بولاق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت. (قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح، لكن بدو الصلاح عندنا أن تؤمن العاهة والفساد."

(كتاب البيوع،مطلب في بيع الثمر والزرع والشجرمقصودا،555/4،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وشرط المعقود عليه ستة: كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم..وأما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لا ينعقد لا يصح، وعدم التوقيت، ومعلومية المبيع."

(كتاب البيوع،505/4،ط:سعيد)

مجمع الانھر میں ہے:

"(ولو) كان البيع (بشرط لا يقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد) لما فيه من زيادة عرية عن العوض فيكون ربا وكل عقد شرط فيه الربا يكون فاسدا."

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،62/2،ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں