واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں جان دار کی تصویر بنانے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیثِ مبارک میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا اِرشاد ہے کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ دوسری حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جان دار کی تصویر بنانے والے کو قیامت کے دن حکم دیا جائے گا اس تصویر میں روح ڈالے اور وہ ایسا نہیں کرسکے گا، پھر اس شخص کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک اور حدیثِ مبارک میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جس گھر میں جان دار کی تصویر یا کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
اسی وجہ سے فقہاءِ کرام نے جاندار کی تصویر اور ویڈیو بنانے اور بنوانے کو حرام اور ناجائز کہا ہے،خواہ کسی بھی آلہ، کیمرہ یا موبائل وغیرہ سے بنائی جائے۔ اور ایسے کام کو پیشہ بنانا بھی جائز نہیں ہے جس میں جان دار کی تصاویر اور ویڈیو وغیرہ بنائی جاتی ہوں یا ان کی ایڈیٹنگ کی جاتی ہو۔ اور ضرورتِ شدیدہ کے موقع پر انسانی تصویر (مثلًا: پاسپورٹ یا شناختی کارڈ وغیرہ کی تصویر) بنوانے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن ملحوظ رہے کہ مجبوری اور ضرورت کی بنا پر جو تصویریں بنوائی جاتی ہیں اس سے تصویر کشی کی حرمت ختم نہیں ہوجاتی، البتہ مجبوری میں تصویر بنوانے والے پر گناہ نہیں ہوتا، بلکہ گناہ ایسا قانون بنانے والوں پر ہوتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جاندار کی تصویر اور ویڈیو بنانا یا ایڈیٹنگ کرنا ناجائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہے، اس کا لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں۔ضرورت کی تصویر (پاسپورٹ، شناختی کارڈ، اسکول یا ادارے کا کارڈ) بنانے کے لیے بھی فوٹوگرافی کا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔صرف غیر جاندار کی تصویر (پہاڑ، سمندر، آسمان، درخت، پھل، پھول، گاڑی، عمارت وغیرہ) بنانا جائز ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:
العناية شرح الهداية (ج:9، ص:98، ط:دار الفکر):
’’(و لايجوز الاستئجار على سائر الملاهي لأنه استئجار على المعصية و المعصية لاتستحق بالعقد) فإنه لو استحقت به لكان وجوب ما يستحق المرء به عقابًا مضافًا إلى الشرع و هو باطل.‘‘
غمز عیون البصائر شرح الأشباہ و النظائر (ج:1، ص:274، ط: دار الكتب العلمية):
’’ الضرورات تبيح المحظورات، و من ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، و إساغة اللقمة بالخمر ...الخ.‘‘
مجمع الأنھر شرح ملتقی الأبحر (ج:2، ص:529، ط: دار إحياء التراث العربي):
’’(و لايجوز قبول هدية أمراء الجور) لأن الغالب في مالهم الحرمة (إلا إذا علم أن أكثر ماله من حل) بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به.و في البزازية: غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته و أكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام؛ لأن أموال الناس لا يخلو عن حرام فيعتبر الغالب و إن غالب ماله الحرام لايقبلها و لايأكل إلا إذا قال: إنه حلال أورثته و استقرضته و لهذا قال أصحابنا: لو أخذ مورثه رشوةً أو ظلمًا إن علم وارثه ذلك بعينه لايحلّ له أخذه و إن لم يعلمه بعينه له أخذه حكمًا لا ديانةً فيتصدق به بنية الخصماء.‘‘
الفتاوی الهندية (ج:5، ص:349، ط:ماجدیة):
’’و في المنتقى إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالا، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: على شرط إن شرطوا لها في أوله مالا بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء و هذا لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية و السبيل في المعاصي ردها و ذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه و بالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصية و الدفع حصل من المالك برضاه فيكون له و يكون حلالا له.‘‘
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144110201191
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن