بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب سے پہلے منی کے قطرے آنے کا حکم


سوال

زید کو اکثروبیشتر صبح بیدار ہونے کے بعد پیشاب سے قبل منی کا ایک قطرہ آتا ہے عام ہے کہ بیداری کے وقت عضو خاص میں ایستادگی ہو یا نہ ہو، لیکن دفق وشہوت نہیں ہوتی ۔ یہ ہی صورت بعض مرتبہ دن میں دوچار گھنٹے کے بعد پیشاب کرنے کے قبل بھی ہوتی ہےچاہے اس دوران شہوت ہوئی ہو یا نا ہوئی ہو ۔ بلکہ بعض مرتبہ شہوت کے بعد پیشاب کرتے وقت فقط مذی نکلتی ہے منی کا ایک قطرہ بھی نہیں  ہوتا ،عموماً بیت الخلاء سے فراغت کے  وقت معمولی زور لگانے سے منی کے کئ قطرات یکے بعد دیگرے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں جس کا احساس تو ہوجاتا ہے لیکن عضو میں ایستادگی ودفق نہیں ہوتا۔  سوال یہ ہیکہ مذکورہ صورت میں کب غسل فرض ہوگا اور کب نہیں؟

جواب

غسل فرض ہونے کے لیے منی کا اپنی جگہ سےجوش  کے ساتھ جدا ہو کر جسم سے باہر نکلنا ضروری ہے، جب اس طرح منی نکلتی ہے تو جوش ٹھنڈا ہوجاتا ہے ،اس سے غسل فرض ہو جاتا ہے۔ اور پیشاب سے پہلے یا بعد میں شہوت کے بغیر جو سفید قطرے بعض لوگوں کو  نکلتے ہیں وہ منی کے بجائے "ودی" کے قطرے ہوتے ہیں، ان کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ البتہ اگر پیشاب کے وقت انتشار ہو اور شہوت سے منی کے قطرے باہر نکلیں تو غسل فرض ہوجائے گا۔

 اگر یہ (پیشاب یا منی  یا ودی کے ) قطرے کپڑوں پر لگیں  تو وہ کپڑے ناپاک ہوں گے اور ان کپڑوں کو دھونا ضروری ہوگا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھیں اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’وفي الخانية: خرج مني بعد البول وذكره منتشر لزمه الغسل. قال في البحر: ومحله إن وجد الشهوة، وهو تقييد قولهم بعدم الغسل بخروجه بعد البول.

 (قوله: ومحمله) أي ما في الخانية. قال في البحر: ويدل عليه تعليله في التجنيس بأن في حالة الانتشار وجد الخروج والانفصال جميعاً على وجه الدفق والشهوة اهـ: وعبارة المحيط كما في الحلية: رجل بال فخرج من ذكره مني، إن كان منتشراً فعليه الغسل؛ لأن ذلك دلالة خروجه عن شهوة.

(قوله: وهو) أي ما في الخانية.(قوله: تقييد قولهم) أي فيقال إن عدم وجوب الغسل بخروجه بعد البول اتفاقاً إذا لم يكن ذكره منتشراً فلو منتشراً وجب؛ لأنه إنزال جديد وجد معه الدفق والشهوة. أقول: وكذا يقيد عدم وجوبه بعدم النوم والمشي الكثير.‘‘

(‌‌كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:161، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں