بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب پینے والی گائے کی قربانی اور اس کا دودھ پینے کا حکم


سوال

جو گائے اپنا پیشاب خود پیتی ہے اُس کی قربانی کرنا کیسا ہے؟ نیز دودھ استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب

جوجانور پیشاب پینے کا عادی ہو جس کی وجہ سے اس کے گوشت میں بدبو ہوگئی ہو تو  ایسے جانور کا حکم یہ ہے کہ اس کو ذبح کرنے سے پہلے باندھ کر رکھا جائے؛ تا کہ وہ اپنا پیشاب نہ پیے ، پھر جب  گوشت سے بدبو کا اثر ختم ہو جائے، اس کے بعد اس کی قربانی کرنا اور اس کا گوشت کھانا بلا کراہت جائز ہو گا، یہی حکم اس کے دودھ کا ہو گا۔

پھر ایسے جانور کو کتنے دن تک باندھ کر رکھا جائے اس کی تحدید بعض نے دس دن سے اور بعض نے چار دن سے کی ہے،  اور بعض فقہاء فرماتے ہیں اس کی تحدید نہیں ہے، بلکہ اتنی مدت تک اس کو اس طرح رکھا جائے جس سے اس کے گوشت کی بدبو ختم ہوجائے تو اس کی کراہت ختم ہوجائے گی، اور یہی راجح ہے۔

النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"وتكره ‌الجلالة من الانعام ويستحب اذا أراد ذبحها ان يحبسها اياما ويعلفها حتى تنظف اجوافها ثم يذبحه."

(کتاب الذبائح والصید، ‌‌‌الجلالة من الانعام، جلد:1، صفحہ: 233، طبع: دار الفرقان)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وتكره لحوم الإبل ‌الجلالة والعمل عليها، وتلك حالها إلى أن تحبس أياما لما روي أن النبي - عليه الصلاة والسلام - «نهى عن أكل لحم ‌الجلالة، وفي رواية أن يحج على ‌الجلالة ويعتمر عليها وينتفع بها» وتفسير ‌الجلالة التي تعتاد أكل الجيف ولا تخلط فيتعين لحمها، ويكون لحمها منتنا فحرم الأكل؛ لأنه من الخبائث، والعمل عليها لتأذي الناس بنتنها، وأما ما يخلط فيتناول الجيف وغير الجيف على وجه يظهر أثر ذلك من لحمه، فلا بأس بأكله، والعمل عليه."

(کتاب الصید، لحوم الإبل ‌الجلالة والعمل عليها، جلد:11، صفحه: 255، طبع: مطبعة السعادة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"يكره أكل لحوم الإبل الجلالة وهي التي الأغلب من أكلها النجاسة لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن أكل لحوم الإبل الجلالة ولأنه إذا كان الغالب من أكلها النجاسات يتغير لحمها وينتن فيكره أكله كالطعام المنتن. وروي «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن الجلالة أن تشرب ألبانها» ؛ لأن لحمها إذا تغير يتغير لبنها، وما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن أن يحج عليها وأن يعتمر عليها وأن يغزى وأن ينتفع بها فيما سوى ذلك» فذلك محمول على أنها أنتنت في نفسها فيمتنع من استعمالها حتى لا يتأذى الناس بنتنها كذا ذكره القدوري - رحمه الله - في شرحه مختصر الكرخي، وذكر القاضي في شرحه مختصر الطحاوي أنه لا يحل الانتفاع بها من العمل وغيره إلا أن تحبس أياما وتعلف فحينئذ تحل.

وما ذكر القدوري - رحمه الله - أجود؛ لأن النهي ليس لمعنى يرجع إلى ذاتها بل لعارض جاورها فكان الانتفاع بها حلالا في ذاته إلا أنه يمنع عنه لغيره."

(کتاب الذبائح والصیود، فصل في بيان ما يكره من الحيوانات، جلد:5، صفحہ: 39، طبع: دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں