میرے ساتھ اکثر پیشاب اور قطروں کا مسئلہ رہتا ہے۔ میں کپڑوں پر جہاں پیشاب اور منی کے قطرے لگے ہوں اُن کو دھو لیتا ہوں اور ساتھ ہی جسم پر جس جگہ وہ قطرے لگے ہوں اُن کو بھی دھو لیتا ہوں۔ پورا غسل نہیں کرتا۔ کیا ایسا کرنے سے نماز وغیرہ ہوجاتی ہے؟
اگر کسی شخص کے کپڑوں اور بدن پر پیشاب کے قطرے لگے ہوں تو جن جگہوں پر یہ قطرے لگے ہوئے ہوں ان جگہوں کو دھو کر وضو کرکےنماز پڑھ لینے سے نماز درست ہو جائے گی، پورا غسل کرنا ضروری نہیں۔لیکن اگر اِحتلام ہوا ہو تو اس صورت میں محض کپڑوں پر لگی ہوئی نجاست کو دھو کر ان کپڑوں میں نماز پڑھنا درست نہیں ہو گا، بلکہ غسل کرنا ضروری ہو گا، غسل کرنے اور موضعِ نجاست کو دھونے کے بعد ان کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولايضر بقاء أثره (إن طهر رأس حشفة) كأن كان مستنجيا بماء.... (وإلا) يكن يابساً أو لا رأسها طاهراً (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دماً عبيطاً على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقاً لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديداً أو مبطناً."
(کتاب الطہارۃ، باب الانجاس، 1/ 312، 313، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100072
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن