بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے بعد قطرے آنے سے نماز کا حکم


سوال

میں اپنی دکان پر کام کرتا ہوں، مجھے پیشاب کے تھوڑی دیر بعد قطرے آتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے میں اگر وضو کے ساتھ پیشاب کر لوں تو نماز کے دوران مجھے قطرے آ جاتے ہیں، اب یہاں یا گھر سے باہر کہیں بھی اس طرح نہیں ہو سکتا کہ آدھا گھنٹہ پہلے پیشاب کروں پھر وضو کر کےنماز پڑھوں، میرے لیے کیا حکم ہے کیا میں وضو کے ساتھ ہی پیشاب کر کے نماز پڑھ سکتا ہوں؟ دوسرا مجھے قطروں کا وہم بھی ہوتا ہے ،بیٹھے بیٹھے یا موبائل دیکھتے نمی محسوس ہونے لگتی ہے ،یہاں میں بار بار دیکھ نہیں سکتا ،اس بارے میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا موبائل دیکھتے ہوۓ قطرے آنے سے غسل ٹوٹتا ہے یا صرف وضو کرنا پڑتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر آپ نماز سے پہلے پیشاب کریں گے تو نماز  پڑھنے  سے پہلے قطرے آنے کا سلسلہ بند ہونا ضروری ہوگا، پھر  اس  کے بعد  وضو  کر کے  نماز پڑھنی ہو گی۔

البتہ اس کی  بہتر صورت  یہ ہے کہ   نماز کے بعد استنجا  کرنے کی عادت بنائیے، اور انڈروئیر استعمال کریں، اور استنجا کرنے کے بعد  انڈروئیر میں ٹشو پیپر  رکھ لیں، تاکہ کچھ وقت بعد اگر قطرے  آئیں وہ ٹشو پیپر پر لگیں، بعد ازاں جب نماز کا وقت ہوتو وہ ٹشو  نکال کر عضو کو دھو لیں،  پھر اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھ لیں، البتہ  صرف  قطروں کے نکلنے کے وہم یا وسوسے سے وضو نہیں ٹوٹتا، لہٰذا جب تک قطره نكلنے كا یقین نہ ہو يا جب تک كپڑوں پر تری نظر نہ آجائے، اس وقت تک ان وسوسوں کو اہمیت  نہ دیا کریں اور اگر موبائل دیکھنے سے  قطرے آتے ہیں تو موبائل دیکھنے سے پرہیز کرے، باقی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، غسل فرض نہیں ہوتا۔

اللباب میں ہے:

"(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم (والغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كذجاج وبط وإوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه: لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفواً، وقدرناه بقدر الدرهم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما: إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع: وهذا القول أصح."

(کتاب الطهارۃ ، باب النجاسة جلد ۱ ص : ۵۱ ، ۵۲ ط : المکتبة العلمیة ،بیروت ۔ لبنان)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال: (و من توضأ، ثم رأى البلل سائلا عن ذكره أعاد الوضوء)؛ لأن البول سال منه، وهو ناقض للوضوء، وإنما قال رآه سائلا؛ لأن مجرد البلة محتملة أن تكون من ماء الطهارة فإن علم أنه بول ظهر عليه فعليه الوضوء، وإن لم يكن سائلا، وإن كان الشيطان يريه ذلك كثيرا، ولا يعلم أنه بول، أو ماء مضى على صلاته؛ لأنه من جملة الوساوس فلا يلتفت إليها لقوله صلى الله عليه وسلم: «إن الشيطان يأتي أحدكم فينفخ بين أليتيه، ويقول أحدثت أحدثت فلا ينصرف حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا»، وفي الحديث «أن شيطانا يقال له الولهان لا شغل له إلا الوسوسة في الوضوء» فلا يلتفت إلى ذلك، وينبغي أن ينضح فرجه، وإزاره بالماء إذا توضأ قطعا لهذه الوسوسة حتى إذا أحس بشيء من ذلك أحاله على ذلك الماء، وقد روى أنس - رضي الله تعالى عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينضح إزاره بالماء إذا توضأ»، وفي بعض الروايات قال «نزل علي جبريل - عليه السلام -، وأمرني بذلك»."

(کتاب الصلوۃ ، باب الوضوء و الغسل جلد ۱ ص : ۸۶ ط : دارالمعرفة ۔ بیروت)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں