میں جب پیشاب کرتا ہوں تو اُس کے بعد مجھے کچھ وقت قطرے آتے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں بار بار پیشاب نہیں کرتا، میرے لیے کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کو پیشاب کے بعد یہ قطرے کچھ وقت ہی آتے ہیں، یعنی مسلسل نہیں آتے ،اور نمازوں کی ادائیگی طہارت کے ساتھ ممکن ہے، تو ایسی صورت میں سائل پر معذور کے احکامات لاگو نہیں ہوں گے، بلکہ پیشاب کے بعد آنے والے قطرےجب رُک جائیں تو جسم اور کپڑوں کو پاک صاف کر کے طہارت کے ساتھ نماز پڑھنا لازم ہے۔
ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ نماز سے کافی دیر پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجایا کریں اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز وغیرہ ادا کریں،اگر وہ قطرے کپڑوں پر لگ چکے ہوں تو اُن کا دھونا بھی ضروری ہے۔
ایک بہتر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ نماز سے پہلے استنجاء کرنے کی بجائے نماز کے بعد استنجا کرنے کی عادت بنائیں ، اور انڈروئیر کا استعمال کریں اور استنجا کرنے کے بعد انڈروئیر میں موٹا ٹشو پیپر رکھ لیں، تاکہ کچھ وقت بعد اگر قطرے آجائیں، تو وہ ٹشو پیپر پر لگیں اور کپڑے ناپاک نہ ہوں، اس کے بعد جب نماز کا وقت ہوجائے، تو ٹشو نکال لیں، پھر اگر پیشاب کے قطرے نکلنے کی جگہ سے دائیں بائیں بھی لگے ہوں تو پانی سے بھی استنجا کرلیں ، اور اگر کپڑوں پر نہ لگے ہوں تو انہیں دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔
باقی اس مرض کے علاج کے سلسلے میں کسی ماہر ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع فرمائیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"شرط ثبوت العذر ابتداء أن يستوعب استمراره وقت الصلاة كاملا وهو الأظهر كالانقطاع لا يثبت ما لم يستوعب الوقت كله حتى لو سال دمها في بعض وقت صلاة فتوضأت وصلت ثم خرج الوقت ودخل وقت صلاة أخرى وانقطع دمها فيه أعادت تلك الصلاة لعدم الاستيعاب."
(كتاب الطهارۃ، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1، ص:40، ط:دارالفكر)
وفيه ايضا:
"ثم الاستنجاء بالأحجار إنما يجوز إذا اقتصرت النجاسة على موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعها بأن جاوزت الشرج أجمعوا على أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسة إذا كانت أكثر من قدر الدرهم يفترض غسلها بالماء ولا يكفيها الإزالة بالأحجار وكذلك إذا أصاب طرف الإحليل من البول أكثر من قدر الدرهم يجب غسله وإن كان ما جاوز موضع الشرج أقل من قدر الدرهم أو قدر الدرهم إلا أنه إذا ضم إليه موضع الشرج كان أكثر من قدر الدرهم فأزالها بالحجر ولم يغسلها بالماء يجوز عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى ولا يكره. كذا في الذخيرة وهو الصحيح. كذا في الزاد."
(كتاب الطهارة، الباب السابع، الفصل الثالث، ج:1، ص:48، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"أما نفس الإستبراء حتى يطمئن قلبه بزوال الرشح فهو فرض وهو المراد بالوجوب، ولذا قال الشرنبلالي: يلزم الرجل الاستبراء حتى يزول أثر البول ويطمئن قلبه. وقال: عبرت باللزوم لكونه أقوى من الواجب؛ لأن هذا يفوت الجواز لفوته فلا يصح له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال الرشح. اهـ ."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، فصل في الإستنجاء ، 344/1 ،ط: سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144612100403
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن